• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کوجمعےکےضمنی انتخابات کے نتائج کو ’ویک اپ‘ کال سمجھناچاہیےکیونکہ یہ 60روزہ حکومت کیلئے اپنی جیتی ہوئی سیٹیں ہارنااچھی بات نہیں اوروہ بھی وہ سیٹیں جواس کےچیئرمین اوروزیراعظم عمران خان نے25جولائی کےانتخابات میں جیتی تھیں۔ اگروہ اپنی پوزیشن کادفاع جس طرح اس کےوزیرِ اطلاعات فوادچوہدری کرتےہیں، اس طرح کرنےکی بجائے انتخا بات سےکچھ سیکھنےکیلئےتیارہیں توپی ٹی آئی سب کچھ نہیں ہاری۔ پی ٹی آئی کوحکومتی پالیسیو ں کےساتھ پارٹی پالیسیوں پربھی نظرثانی کرنےکی ضرور ت ہےکیونکہ گیس ٹیرف اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافے کی طرح جلدی میں لیے گئے فیصلوں سے عام آدمی کو نقصا ن ہوتا ہے جبکہ پارٹی کی جانب سے امیدواروں کے انتخاب پراندرونی تنقید کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ تمام جما عتوں کیلئے سب سے بڑا سبق ضمنی انتخابات میں ووٹرزکےٹرن آئوٹ کو بہترکرناتھا اورانھیں اس بات سے باہرنکلناچاہیے کہ چھوٹے انتخا با ت میں ٹرن آئوٹ کم ہوتاہے۔ کسی بھی پارٹی رہنما نے ان انتخابات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ شہباز شریف کی گرفتاری اورنوازشریف جوقومی شناختی کارڈ نہ لانے کےباعث اپنا ووٹ نہ ڈال سکےاور وہ بہت تاخیر سے پہنچے تھے اور پولنگ کیلئے زیادہ وقت نہیں تھا، ان کےمکمل خاموش ہونے کے بعد پست حوصلہ پی ایم ایل(ن) کیلئے یہ انتخابات مشکل بھی تھے۔ لہذا پی ایم ایل(ن) کیلئے بھی سبق ہے اور ان خبروں کے باعث کہ پارٹی شاہد خاقان عباسی کو قائمقام صدرپی ایم ایل(ن) بنا سکتی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کیلئے مشکلات آنےوالی ہیں۔ ان ضمنی انتخا با ت میں پی ٹی آئی اور پی ایم ایل(ن) کے درمیان موجودفاصلہ دیکھنے کیلئےپی پی پی کیلئےبھی بہت کچھ ہے۔ غالباً پی پی پی کاپنجاب او ر خیبر پختون خوامیں پارٹی زوال کےباعث پی ایم ایل (ن) کے امیدوا رو ں کی حمایت کرنےکا اعلان درست فیصلہ تھا، بلاول بھٹو اور دیگرتجربہ کارپارٹی لیڈرزکونئے سرے سےپارٹی میں روح پھو نکنے کیلئےکچھ الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی اور اپوزیشن دونوں کیلئےآئندہ چھ ماہ کافی مشکل ہوں گے کیونکہ اس وقت تک عمران کے ریفارم ایجنڈےاوراس کے نفاذ کا بھی کاپتہ لگ جائےگا اورپی ایم ایل(ن) اور پی پی پی رہنماوں کی قسمت کا فیصلہ بھی ہوجائےگا۔ لیکن پہلے11قومی اسمبلی اور 24صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پرپارٹی پوزیشن دیکھتےہیں۔ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل(ن) نےچار سیٹیں شیئرکی جبکہ پی ایم ایل (کیو) نے دو سیٹیں اور ایم ایم اےنے ایک سیٹ حاصل کی۔ پی ایس میں پی ٹی آئی پنجاب میں چار سیٹیں جیتی اور کےپی میں پانچ جیتی۔ پی ایم ایل(ن) نے پنجاب میں پانچ سیٹیں حاصل کیں اور کے پی میں ایک، پی پی پی نے سندھ میں دو سیٹیں حاصل کیں اور اے این پی نے کےپی میں تین سیٹیں حاصل کیں اور دو سیٹیں آزاد امیدو اروں نے حاصل کیں۔ پہلی بار 7500بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں میں سے 6000سےووٹ ڈالے۔ جبکہ لاہور کے حلقےاین اے131کانتیجہ حیران کن نہیں تھاکیونکہ 25جولائی کے انتخابات میں عمران خان پی ایم ایل (ن)کےخواجہ سعدر فیق کےخلاف 700ووٹوں کے معمولی فرق سےجیتےتھے۔ اگرپی ٹی آئی نے در ست امیدوارکاانتخاب کیاہوتا تویہ اچھی کارکردگی دکھا سکتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمایوں اختر ایک تجربہ کار مہم چلانےوالے ہیں لیکن وہ پی ٹی آئی کے اند ر سےہی حمایت حاصل نہ کرسکےجوولیداقبال کو اپنا امید و ار دیکھناچاہتےتھے۔ پی ٹی آئی اٹک سے بھی اندرنی اختلافات کےباعث ہارگئی اور حتیٰ کہ فوادچوہدری اور پنجاب کےوزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان نے اعتراف کیاکہ امیدواروں کاانتخاب ٹھیک نہیں تھا۔ خاص طورپر بنوں اور سوات کےنتائج بھی پی ٹی آئی کے خلاف گئے جبکہ فیصل آباد میں بھی ان کی ہار ہوئی۔ پی ٹی آئی کو راولپنڈی میں فائدہ ہوا اور اسلام آباد میں بھی اس نے سیٹ حاصل کی۔ راولپنڈی کا حلقہ این اے60جو ماضی میں پی ایم ایل(ن) رہنما حنیف عباسی کے پاس تھا وہ اب شیخ رشید کی فیملی کےسیاستدان کے پاس ہے۔

تازہ ترین