• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ایک جہاں گرد دوست ترقیاتی منصوبوں کے سلسلے میں ملکوں ملکوں گھومتے رہتے ہیں اور اپنے مشاہدات بتاتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں ان کو ایتھوپین ائیر لائن سے افریقہ جانے کا اتفاق ہوا اور منزل مقصود پر پہنچتے ہی مجھے فون پر بتانے لگے کہ وہ مذکورہ ائیر لائن کی کار کردگی سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ پھر وہ کہنے لگے کہ وہ ایتھوپیا کی ایئر لائن اور ان کے ائیر پورٹ پر کھڑے چالیس جہازوں کی موجودگی کی روشنی میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کی معاشی ترقی(جی ڈی پی کے بڑھنے کی رفتار) کافی تیز ہے۔ میں نے گوگل سے چیک کرکے انہیں فوراًبتایا کہ ایتھوپیا کی سالانہ پیداوار 7.5 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ انہیں کوئی حیرت نہ ہوئی اور انہوں نے مزید بتایا کہ ایتھوپیا بھی دریائے نیل پر پاکستان کی طرح ہڈاسے یا میلنیم ڈیم بنانا چاہتا تھا لیکن کوئی بھی عالمی ادارہ اس کے لئے مالیات فراہم کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ ایتھوپیا نے خود مالیات کا بندوبست کیا اور سیاسی عزم کو قائم رکھتے ہوئے ڈیم کو مکمل کر لیا۔اگر ہمارے دوست کے معاشی ترقی کو بھانپنے کے طریقوں میں کوئی سچائی ہے تو پاکستان ایئر لائن (پی آئی اے) کی حالت زار سے ہی ملک کی بدحالی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔آپ نے غور کیا ہوگا کہ میں نے نہ اپنے دوست کا نام لکھا اور نہ ہی افریقہ میں ان کی منزل مقصود کا ذکر کیا۔ یقین جانیے کہ وہ کسی بھی طرح کے خفیہ مشن پر افریقہ نہیں گئے لیکن میں نے سوچا کہ پاکستان میں جس طرح کی انتقامی سیاست زوروں پر ہے اس میں بالواسطہ تنقید کرنے والا بھی دھر لیا جا سکتا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور بزرگ اساتذہ کو ہتھکڑیاں پہنا کر عدالت سے جسمانی ریمانڈ نہ لیا جاتا۔ ذاتی طور پر میری ڈاکٹر مجاہد کامران کیساتھ کوئی بہت زیادہ خوشگوار یادیں وابستہ نہیں ہیں۔ جب میں پنجاب یونیورسٹی کے فلسفہ ڈیپارٹمنٹ میں پڑھا رہا تھا اور بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ تھا تومجاہد کامران فزکس پڑھاتے تھے اور دائیں بازوکے حامی اساتذہ کے گروپ سے گہرے مراسم رکھتے تھے۔انہوں نے میرے خلاف یونیورسٹی اساتذہ کی تنظیم کے جنرل سیکرٹری کا الیکشن بھی لڑا اور وہ چند ووٹوں سے جیت بھی گئے۔ مزید برآں جب مجھے یونیورسٹی سے نکالا جا رہا تھا انہوں نے اساتذہ کی تنظیم کی طرف سے میرے حق میں آواز اٹھانے کی بجائے میرے مخالفین کا ساتھ دینے کو ترجیح دی۔ لیکن وہ بعد میں دائیں بازوکے حامی اساتذہ سے نہ صرف الگ ہو گئے بلکہ ان کے مخالف ہو گئے۔ چونکہ وہ مذکورہ گروہ کے داؤ پیچ کو خوب جانتے تھے اسلئے وہ ان کیخلاف موثر پالیسیاں بنانے میں بھی کامیاب رہے۔ اور وہ اب شاید اسی جرم کی سزا بھگت رہے ہیں کیونکہ ان کے مخالفین کے حامی پی ٹی آئی کی اگلی صفوں میں ہوتے ہوئے حکومت میں ہیں۔

یحییٰ خان کے مارشل لا کے زمانے سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تک کے زمانے میں بہت سے مقدمات بھگتنے کے بعد میں انتقامی سیاست کو دور سے ہی سونگھ لیتا ہوں۔ مثلاً یحییٰ خان کے مارشل لا کے دور میں ایک دن صبح صبح وحدت کالونی کے تھانے والے مجھے، ایک ساتھی شجا ع الحق اور ایک بالکل غیر متعلقہ ایم ایڈ کے طالب علم الطاف بودلہ کو پکڑ کر فوجی عدالت کے سامنے لے گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ہم تینوں پر یونیورسٹی آڈیٹوریم کی بلند و بالا عمارت پر یکم مئی کو سرخ جھنڈا لگانے کا الزام ہے جو کہ غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ جب ہمیں فوجی افسر کے سامنے پیش کیا گیا تو میں نے کہا کہ ہم تو جسمانی طور پر جھنڈا لگا ہی نہیں سکتے کیونکہ میں پولیو کی وجہ سے ہمیشہ بیساکھیوں کے سہارے چلتا ہوں، شجاع الحق جسمانی لحاظ سے نہایت نحیف و نزار ہیں اور تیسرے صاحب کا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ میں نے افسر کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اس عمارت پر جھنڈا لگا کر دکھا دیں تو ہمیں جو چاہے سزا دے لیں۔ میری دلیل نے فوجی افسر کو سوچنے پر مجبور کردیا اور اس نے ہمیں بری کردیا۔ مجھے یہ جستجو تھی کہ میں اور شجاع الحق تو سیاسی کارکن تھے لیکن بیچارے غیر سیاسی الطاف بودلہ کوکس جرم میں دھر لیا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ سی آئی ڈی (خفیہ پولیس) والے کی آنکھ اس لڑکی پر تھی جو ہر وقت الطاف بودلہ کے ساتھ پائی جاتی تھی۔ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ہمارے خلاف کن لوگوںنے پولیس اور فوج کی ملی بھگت سے مقدمہ بنایا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ پچاس سال گزر گئے اور آج بھی وہی عناصر انتقامی سیاست کو جاری رکھتے ہوئے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران جیسے لوگوں پر مقدمات قائم کروانے میں کامیاب ہیں۔

پاکستان میں معاشی ترقی کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے لیکن سیاسی پراگندگی نے ملک کے پاؤں میں زنجیریں ڈالی ہوئی ہیں۔ ملک کو مختلف انواع کی انتہا پسندی اور انتقامی سیاست بازی نے مفلوج کیا ہوا ہے۔ ہر عشرے میں مالی بحران ملک کو دیوالیے پن کی سطح پر پہنچا دیتا ہے اور ملک کے حکمرانوں کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کے چرنوں میں گرنا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف کی محض اتنی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا میں ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھے: یہ ادارہ قائم ہی اسلئے کیا گیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کاروباری بحرانوں کی گردش یا بزنس سائیکل (Business Cycles) ایک مسلمہ حقیقت ہے اور اس کیلئے ایک عالمی ادارے کی ضرورت ہے جو عارضی مسائل حل کر سکے۔ آئی ایم ایف کسی ملک کو اشیائے ضرورت کو مہنگا کرنے کا تقاضا نہیں کرتالیکن اگر کوئی ملک اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے آمدنیوں پر ٹیکس ہی وصول نہ کر سکے اور عوامی ضروریات (بجلی، گیس، پٹرول وغیرہ) پر بالواسطہ ٹیکسوں سے ہی کام چلانے کی کوشش کرے تو پھر وہ کیا کرے؟ آئی ایم ایف کو تو ہر قرض خواہ کی طرح اپنا دیا ہوا قرضہ واپس لینا ہے اور وہ اس کیلئے ہر ممکن ذریعہ استعمال کرےگا۔ اگر آپ آئی ایم ایف کو یقین دلا دیں کہ آپ صاحب ثروت لوگوں سے ٹیکس وصول کر کے قرضہ واپس کر دیں گے تو وہ کبھی بھی اشیائے ضرورت پر ٹیکس بڑھانے کی بات نہیں کرےگا۔

پاکستان کا بنیادی مسئلہ معاشی صلاحیتوں کی بجائے سیاسی اداروں کی کمزوری اور بے راہ روی کا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کے ایجنڈے پر نہیں ہے کہ وہ قابل ٹیکس لوگوں سے واجبات وصول کرکے عوام کو سہولتیں فراہم کرے گی۔ تقریباً ہر سیاسی پارٹی اقتدار میں آکر شعبدہ بازیوں میں مصروف ہو جاتی ہے۔ موجودہ حکومتی پارٹی تو غلط مفروضوں یعنی کرپشن کو ختم کرنے پر مبنی نعروں کی مدد سے اقتدار میں آئی ہے۔ بنگلہ دیش اور ہندوستان میں پاکستان سے کہیں زیادہ کرپشن ہے لیکن وہ پھر بھی بڑی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ اب پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کی آڑ میں جو انتقامی سیاست ہو رہی ہے اس کا انجام بھی بھیانک ہوگا۔ یہ وہ معاملہ ہے جس میں آئی ایم ایف بھی بے بس ہے۔ وگرنہ اگر کوئی طاقت پاکستان پر سیاسی سمت کو سیدھا کرنے کی شرط لگا دے تو معیشت خود بخود بحال ہو جائے گی۔ لیکن آئی ایم ایف ایسا کر نہیں سکتی اور نہ ہی اسے ایسا کرنا چاہئے۔

تازہ ترین