• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے گزشتہ چند برسوں میں پنجاب کے لگ بھگ بیس ڈسٹرکٹ کوارڈی نیشن افسران کافی قریب سے دیکھ رکھا ہے اور ماسوائے چند ایک کم نصیبوں کے زیادہ تر کا شمار بہتر انسانوں میں ہوتا ہے۔ اسلم کمبوہ ان میں سرفہرست تھے کہ جن میں صوفیوں والی نرم خوئی اور درویشوں والی سادگی کوٹ کوٹ کر بھری آپ کو دور سے ہی دکھائی دینے لگتی تھی۔ موصوف آج سے تقریباً سات سال پہلے ڈی سی او اوکاڑہ ہوتے تھے۔ انہیں اوکاڑہ چھوڑے طویل عرصہ گزر چکا ہے مگر اوکاڑہ والوں کے دلوں میں وہ آج بھی بستے ہیں۔
ساہیوال کے موجودہ ڈی سی او ذوالفقار گھمن کا شمار بھی افسروں کی اسی اچھی قسم میں ہوتا ہے جنہوں نے کرپشن کے کیچڑ میں رہتے ہوئے بھی اپنا دامن داغدار نہیں ہونے دیا۔ تاہم آج کل پورے ضلع میں ان کی وجہ شہرت وہ انقلابی اقدام ہے کہ جس نے چاروں طرف کہرام مچا رکھا ہے۔ آپ نے فرد ملکیت اور رجسٹری برانچ کو کمپیوٹرائز کر کے پٹواری کے کردار کو انتہائی محدود کر ڈالا ہے۔ اس سے جہاں کرپشن میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے وہاں عوام کے منہ سے حکومت کے لئے صبح و شام کلمہ خیر بھی نکلنے لگا ہے اور یہ سب کچھ ہم نے پچھلے دنوں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے۔
ساہیوال میں ایک روزہ قیام کے دوران ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ سابق ضلعی ناظم اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ رائے حسن نواز صوبائی سیٹ پر ضمنی انتخاب لڑ رہے ہیں اور اچھی شہرت کے سبب ان کی پوزیشن دیگر امیدواران کے مقابلے میں بہت اچھی ہے تاہم گزشتہ روز کے انتخابی نتائج دیکھ کر ہمیں ساہیوال والے رائے صاحب اور ڈسکہ سے بریال صاحب کی شکست پر بہت حیرت ہوئی کہ بظاہر ان دونوں کا پلڑہ بھاری تھا۔ گو کہ نواز لیگ نے اپنی ہی سیٹیں جیتی ہیں مگر اس کی جیت کا مارجن تقریباً ہر جگہ قابل رشک تھا۔ گجرات جیسے شہر سے ایک لاکھ ساڑھے چھ سو ووٹ لے جانا بلاشبہ ایک لاجواب کارنامہ ہے۔ ای طرح دیگر تمام سیٹوں پر بھی ووٹر ٹرن اوور اس قدر زیادہ رہی کہ نواز لیگ کی جیت کا مارجن بہت واضح نظر آیا اور اسی وجہ سے ق لیگی حلقوں میں زبردست تشویش پائی جاتی ہے کہ ضمنی الیکشن میں عام انتخابات کی نسبت ووٹر کم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے مگر یہاں سلسلہ بالکل ہی مختلف تھا۔
اصحاب ق کی اعلیٰ کمان میں یہ تشویش بھی بدرجہ اتم پائی گئی ہے کہ ضمنی انتخابات میں ان کی حلیف جماعت پیپلز پارٹی نے زیادہ جوش و جذبے کا مظاہرہ نہیں کیا جس کے سبب ووٹروں کی اکثریت گھروں سے باہر ہی نہیں نکلی۔ گو کہ پیپلز پارٹی کے موجودہ حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں کہ پنجاب میں اس کی پوزیشن تقریباً وہی ہو چکی ہے جو سن 1997 کے عام انتخابات میں تھی۔ البتہ ق لیگ کا ووٹر نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اس نے الیکشن میں سر دھڑ کی بازی بھی لگائی پیپلز پارٹی اپنی تمام تر بدحالی کے باوجود اگر تھوڑی محنت مزید کر لیتی تو نتائج مختلف بھی ہو سکتے تھے۔
پچھلے دنوں حمزہ شہباز کی انتخابی مصروفیات کو ہم نے بغور دیکھا تو محسوس ہوا کہ یہ نوجوان کوئی نہ کوئی چن ضرور چڑھائے گا۔ تقریباً اسی طرح کی مصروفیت ہم نے آج سے ساڑھے چار برس ادھر چوہدری مونس الٰہی کی بھی دیکھی تھی جب وہ گجرات میں عمران مسعود کے ضمنی انتخاب کی پلاننگ اور کمپین کر رہے تھے۔ اس الیکشن میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ یکجا تھے مگر ق لیگ نے اس قدر ٹف ٹائم دیا کہ بقول اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ”در حقیقت ق لیگ یہ الیکشن جیت چکی تھی، بس عین آخری وقت میں ہمیں کچھ کرنا پڑا۔“ یہ بات موصوف نے نجانے کس موڈ میں کہی اور اس سے ان کی مراد بھی خدا ہی بہتر جانے کہ کیا تھی مگر یہ بات انہوں نے ہمارے سامنے اپنے لاہور والے گھر میں ون آن ون ملاقات کے دوران بنفس نفیس کی تھی۔
بہرحال، حمزہ شہباز کی شبانہ روز محنت اور نواز شریف کی ثابت قدمی نے اس قابل رشک انتخابی نتیجے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اس چھوٹی سی ضمنی ایکسرسائز نے جو چند اہم باتیں واضح کر دی ہیں ان میں سرفہرست یہ ہے کہ عمران ”خان فیکٹر“ دھیرے دھیرے اپنا اثر کھونے لگا ہے اور اس پر سب سے زیادہ تشویش پیپلز پارٹی کو ہے جو محض اس گمان پر تکیہ کئے بیٹھی تھی کہ نواز شریف کا اثر زائل کرنے کے لئے پنجاب میں عمران خان ہی کافی ہیں!
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے کوئی لمبی چوڑی امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ اس کی ذمہ داری بنیادی طور پر تو پارٹی کی صوبائی قیادت پر عائد ہوتی ہے مگر سچ پوچھئے تو یہ سلسلہ بہت اوپر سے شروع ہوتا ہے اور اس کے پیچھے لمبی چوڑی کرپشن کے قصے، بد حکومتی و دیگر حماقتیں کارفرما ہیں، اس پارٹی کا بیڑہ غرق کرنے والوں میں زرداری صاحب تو خیر تھے ہی مگر یوسف رضا گیلانی کو بھی اس حوالے سے خوب یاد رکھا جائے گا۔
اس سلسلہ کی آخری اور شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ اصحاب ق کا ووٹر آج بھی تگڑا اور سرفروش ہے اور جب نواز لیگ کے سر سے حکومت کی چھتری ہٹ گئی تو پنجاب میں چوہدری برادران پیپلز پارٹی کی مریل سپورٹ کے باوجود نواز لیگ کو بہت ٹف ٹائم دیں گے۔
تازہ ترین