• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سید علی جیلانی…سوئٹزرلینڈ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشراف المخلوقات بنایا اور زندگی گزارنے کے لئے قرآن کی شکل میں ایک ضابطہ حیات دیا اور بتا دیا کن باتوں سے اللہ اور اس کے رسول خوش ہوتے ہیں اور کیا چیزیں ناپسندیدہ ہیں۔ 29ویں پارہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے زندگی اور موت اس لئے دی ہے کہ تم کو آزمایا جاسکے کہ تم میں بہتر عمل کس کا ہے یعنی زندگی اور موت کے درمیان کا وقت ہمارا امتحان ہے کہ ہم اپنے عمل کو بہتر بناتے ہیں اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں یا اس کے برخلاف چلتے ہیں لیکن آج کا انسان اس راستے پر چلنا تو درکنار بلکہ گناہ اس ڈھٹائی سے کرتا ہے جیسے یہ اس کی زندگی کا حصہ ہے۔ دنیا کے جتنے بڑے بڑے عیب اور گناہ ہیں وہ آج کے انسان میں پائے جاتے ہیں اور خوف اللہ دل سے نکل چکا ہے۔ کچھ مہینوں پہلے پاکستان کے شہر قصور میں ایک ظلم کی داستان رقم ہوئی تھی اور ایسا درد ناک واقعہ جس میں پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں جہاں بھی پاکستانی بستا ہے اس کو غمزدہ کردیا لوگوں کے دل دہل گئے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ایک کمسن بچی زینب کا اغوا اس کے بعد اس بچی کے ساتھ زیادتی اور پھر بے دردی سے قتل کرکے لاش کوڑے میں پھینک دی۔ زینب کے والدین پر قیامت گزر گئی، ہر پاکستانی یہ سوچ رہا تھا کہ والدین اس صدمے کو کیسے برداشت کریں گے ایک معصوم بچی کلی بننے سے پہلے ہی مرجھا گئی۔ قصور شہر جو کہ ہمیشہ علم و نور کا شہر رہا ادھر ہر طرف خوف ہی خوف پھیل گیا کیونکہ اس بچی سے پہلے بھی بارہ بچیاں درندوں کی ہوس کا نشانہ بنیں۔ ننھی ایمان فاطمہ، فوزیہ، نور فاطمہ، عائشہ آصف، ثنا عمر، کائنات بتول اور دیگر اس دنیا سے چلی گئیں۔ بالآخر پولیس نے عمران نامی شخص کو گرفتار کیا جس نے زیبب سمیت7مزید بچیوں کے ساتھ زیادتی کی۔ ملزم عمران علی کو عدالت نے 17فروری کو 4مرتبہ سزائے موت اور قید کے علاوہ 41لاکھ کے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ان واقعات اور خاص کر زینب کیس میں تمام قوم لرز گئی اور یقیناً حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی روح بھی تڑپ گئی ہوگئی جنہوں نے بڑی محنت اورجدوجہد کے بعد اس ملک کی بنیاد رکھی اور سوچا تھا کہ اس ملک میں اسلامی نظام نافذ ہوگا اور چھوٹے بڑوں کی عزت محفوظ ہوگی ہر کسی کے لئے قانون یکساں ہوگا۔ لیکن یہاں جو بھی حکومت آئی اس نے قانون کو اپنی جوتی سمجھا اور اپنے لئے تو استثنیٰ لیتے رہے اور طاقتور اپنے تعلقات اور پیسے کی بدولت قانون کو روندتا رہا۔ آج پاکستان میں دیکھ لیں کہ حکمران اور ان کے خاندان کے لوگ بڑی بڑی کرپشن کرتے ہیں اور قانون ان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتا ہے ہمارے بزرگوں نے پاکستان اس لئے بنایا تھا، اپنی جانوں کا نذرانہ اس لئے دیا تھا تاکہ ہم مذہبی، سیاسی، ثقافتی خود مختاری کے ساتھ ایک آزاد وطن میں سانس لے سکیں لیکن ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چند خاندانوں کے غلام بن گئے ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ چوری، ڈاکہ زنی، قتل و غارت گری، ملاوٹ، مردہ گوشت کی فروخت وغیرہ وغیرہ ایسے تمام قانون شکن لوگوں کو قانون کے شکنجے میں لانا ہوگا۔ لوگ آج جرم کرتے ہیں کل ضمانت پررہا ہوکر آجاتے ہیں اور پھر باہر بھاگ جاتے ہیں پولیس کو ہمیشہ سیاسی قیادت نے اپنے لئے استعمال کیا۔ زیبنت کا واقعہ اور اس سے پہلے دوسری بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوئے لیکن پولیس نے ایسی پھرتی نہیں دکھائی جیسے دکھانی چاہئے تھی اب وقت آگیا ہے کہ سزائوں کو یقینی بنایا جائے ۔ اگر 2015میں رونما ہونے والے واقعہ جس میں متعددلڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز سامنے آئیں حکومت سخت ایکشن لیتی اور مجرموں کو سخت سے سخت سزا دیتی تو شاید آج زینب والا واقعہ رونما نہ ہوتا اس وقت بھی بڑا ایکشن لینے کی باتیں ہوئیں اور پھر معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں بعض جگہ بچے اپنے رشتہ دار اور جاننے والوں سے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں لیکن وہ خوف کی وجہ سے والدین کو نہیں بتاتے۔ بچوں سے زیادتی کرنے والے ذہنی بیمار نہیں ہوتے بلکہ پوری ایک پلاننگ کرکے بچوں کو ہوس کا نشانہ بناتے ہیں کوئی بھی بچہ جس کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہ اس واقعہ کو نہیں بھولتا بلکہ اس واقعہ کا اثر اس کی شخصیت اور مستقبل پر پڑتا ہے۔ آج بھی کتنی مشہور ماڈلز، اداکار اور جانی پہچانی شخصیات زبان کھولتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ بچپن میں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اب وقت آگیا ہے کہ اپنے بچوں کو محبت شفقت سے اس بارے میں بتائیں کہ کوئی بھی رشتہ دار، ملازم، جاننے والا آپ کو جنسی ہراسان کررہا ہو تو اس کے لئے کیا تدابیر اختیار کرنا چاہئے اور اپنے والدین کو اس بارے میں مطلع کرنا چاہئے۔ اب حکمرانوں کو بھی گونگا بہرا نہیں بننا اور پولیس کو اختیارات دینے ہیں سخت سے سخت قانون ان درندوں کیلئے بنانا ہے جو بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں زینب بچی کا قاتل عمران علی بالآخر اپنے برے کام کی وجہ سے برے انجام کو پہنچا اچھا تو یہ ہوتا کہ اس کو سر عام پھانسی دے کر دوسروں کیلئے عبرت کا نشان بنایا جاتا دو چار روز تک کسی چوراہے پر لٹکایا جاتا اور پورے معاشرہ کو پیغام دیا جاتا کہ جو شخص اس جرم کا ارتکاب کرے گا اس کہ یہی حشر ہوگا۔ زینب کا واقعہ انسانیت کی ذلت، درندگی وحشیانہ مثال ہے، انسان درندہ کس طرح بنتا ہے یہ ہم نے اس مجرم عمران علی کی زندگی کی مثال دیکھی اور پھر اس کا انجام بھی دیکھا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان کی طاقت عطا کرے، دین اسلام کو سمجھنے اور دین کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، خوف خدا ہم میں پیدا کرے کثرت سے استغفار پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام گناہوں سے بچائے تاکہ ہم صحیح مسلمان بن سکیں۔
تازہ ترین