• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مردم شماری کامعاملہ سندھ میں انتہائی حساس سیاسی معاملہ بن چکا ہے۔ سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے آئندہ مارچ میں مردم شماری کے انعقاد کے پیش نظر صوبے کے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالیں اور صوبے کے طو ل وعرض میں لانگ مارچ بھی کیا ۔ کالا باغ ڈیم کی طرح مردم شماری بھی اس وقت انتہائی حساس سیاسی ایشو کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ مردم و خانہ شماری کے عمل اور نتائج کو قابل قبول بنانے کےلیے سندھ کے خدشات اور تحفظات کو لازمی طورپرمدنظر رکھنا ہو گا۔ اس طرح کے تحفظات اور خدشات دیگر صوبوں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ یہ اور با ت ہے کہ سندھ نے ان کا واضح طورپر اظہار کیاہے ۔ معاملے کی حساسیت کا ادراک کرتے ہوئے گذشتہ اتوار کوپاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے مردم شماری کے معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس ( اے پی سی ) منعقد کی گئی ، جس میں تمام وفاق پرست ، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں نے شرکت کی ۔ اے پی سی کا انعقاد چیف منسٹر ہاؤس کی انیکسی میں ہوا اور اس کی صدارت خود وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کی ۔ اے پی سی میں شامل تمام سیاسی جماعتوں نے آئندہ مردم شماری کو پاکستان کی سیاست ، قومی سلامتی اور مستقبل کےلیے انتہائی اہم معاملہ قرار دیا ۔ اے پی سی کی قرار دادوں میں وفاقی حکومت کےلیے وہ سفارشات موجود ہیں ، جن پر عمل درآمد کرکے مردم و خانہ شماری کے عمل اور نتائج کو پورے ملک کےلیے قابل قبول بنایاجا سکتا ہے ۔مذکورہ اے پی سی کو سندھ کی سیاست کے تناظر میں ایک بڑی سیاسی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اگرچہ اے پی سی میں شامل تمام جماعتوں نے اجتماعی خدشے کا اظہار کیا کہ سندھ کی آبادی کو کم ظاہر کیا جائے گا لیکن اے پی سی میں مختلف قومی اور لسانی گروہوں کے یہ خدشات بھی سامنے آئے ہیں کہ سندھ کے اندر بھی لسانی گروہ اپنی آبادی زیادہ دکھانےکےلیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر سکتے ہیں ۔ سندھ پاکستان کا ایک ایسا صوبہ ہے ، جہاں لسانی تقسیم بہت گہری ہے ۔ اے پی سی کی سیاسی کامیابی یہ ہے کہ تمام جماعتیں مشترکہ اعلامیہ پر متفق ہوئیں ، جن میں سے بعض تو مردم و خانہ شماری کے معاملے پر ایک دوسرے کے بارے میں شاکی ہیں۔ اے پی سی کا مشترکہ اعلامیہ سندھ کی مشترکہ آواز ہے ۔ دونوں طرح کے خدشات کو دور کرنےکےلیے اے پی سی کی قرار دادوں میں قابل عمل تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ سندھ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اسے مردم شماری کا التوا کسی صورت بھی قبول نہیں ہے۔دنیا کا کوئی بھی ملک مردم و خانہ شماری کے بغیر نہیں چلتا ہے۔1947 ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ ابتدائی سالوں میں پاکستان کو انتہائی گمبھیر اور پیچیدہ مسائل کا سامنا تھا ، اس کے باوجود1951 ء میں مردم شماری ہوئی ۔ پھر ٹھیک 10 سال بعد 1961 ء میں یہ آئینی تقاضا پورا کیا گیا۔1971ء میں پاکستان کی تیسری مردم شماری ہونا تھی لیکن بھارت کے ساتھ جنگ اور سقوط ڈھاکا کے سانحہ کی وجہ سے 1971ء میں مردم شماری نہیں ہوئی لیکن 1972ء میں اس کا انعقاد ہوا حالانکہ اس وقت بھی پاکستان شدید بحرانوں کا شکار تھا ۔چوتھی مردم شماری 1981ء میں ہوئی ۔ اس کے بعد17 سال تک جمہوری حکومتیں بھی یہ کام نہ کر سکیں ۔ عالمی اداروں کے دباؤ پر1998 ء میں 5 ویں مردم و خانہ شماری کرائی گئی ۔ اب مزید 18 سال گذرگئے ہیں لیکن چھٹی مردم شماری نہیں ہو سکی ہے ، جس سے نہ صرف وفاق اور صوبوں کے درمیان بلکہ صوبوں کے اندر لسانی گروہوں کے مابین بھی شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہاہے ۔ پانچویںاور چھٹی مردم شماری بروقت نہ ہونےکے دیگر اسباب کے علاوہ ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ پاکستان کے لوگ اس معاملےپربہت حساس ہو گئے ہیں ۔ پاکستان کی تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ماضی میں اگرچہ مردم شماری بروقت ہوئی لیکن 1951 ء سے 1998 ء تک مردم و خانہ شماری کے نتائج درست نہیںتھے ۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں نے اپنے ’’ سیاسی ‘‘ ایجنڈے کے تحت یہ نتائج مرتب کیے اور ان نتائج کی بنیادپر اپنے سیاسی مقاصد بھی حاصل کیے لیکن اب چالاکیوں کا زمانہ ختم ہو گیاہے ۔ اب اگر قابل قبول طریقوںسے مردم و خانہ شماری نہیں کرائی گئی اور لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ نتائج معروضی حقائق سے میل نہیں کھاتے ہیں توان نتائج کو قبول نہیں کریںگے ۔ مردم شماری کے انعقاد میں زیادہ تاخیر بھی پاکستان کے سیاسی اور داخلی استحکام کےلیے نقصان دہ ہو گی۔نہ صرف صوبوںکے درمیان بداعتمادی بڑھے گی بلکہ صوبوں کے اندر مختلف لسانی گروہوں کے مابین بھی شکوک و شبہات میںاضافہ ہو گا۔ بعض لوگوں کو شاید اس بات کااحساس نہیں ہے کہ بلوچستان کے بعض حلقے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مردم شماری اس وقت تک نہ کرائی جائے،جب تک بلوچستان سے غیر ممالک اور دیگر صوبوں کے لوگوںکو نکال نہ دیا جائے۔ سندھ کے لوگوں نے بھی اے پی سی میں غیر قانونی تارکین وطن کے شناختی کارڈ ختم کرنے اور انہیں واپس اپنے ملکوں میں بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ پنجاب میں بھی سرائیکی علاقے کے لوگوں کے بہت سے تحفظات ہیں ۔ خیبرپختونخوا میں بھی مختلف لسانی گروہ مختلف خدشات کا شکار ہیں ۔ ان تمام تحفظات اور خدشات کو دور کرنےکےلیے ضروری ہے کہ انتہائی شفاف طریقے سے مردم شماری کرائی جائے اور طریقہ کار کے تعین کےلیے تمام صوبوںکے لوگوںسے نہ صرف مشاورت کی جائےبلکہ انہیں یہ کام کرنے والے وفاقی اداروں میں برابر کی نمائندگی بھی دی جائے ۔ پیپلزپارٹی کے تحت ہونے والی اے پی سی نے قرار دادوں کے ذریعہ جو سفارشات پیش کی گئی ہیں یا جو مطالبات کیےگئے ہیں ، ان میں وفاقی حکومت کےلیے ایک گائیڈ لائن موجودہے ۔ وفاقی حکومت بھی اسی طرزپر اے پی سی کا انعقاد کر سکتی ہے اور اس انتہائی حساس مسئلے پر قومی اتفاق رائےپیدا کیاجا سکتاہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے نہ صرف سندھ کواس معاملےپر یکجا کیاہے بلکہ اپنے اس سیاسی اقدام سے وفاقی حکومت کو بھی ایک راستہ دکھا دیا ہے ۔ پاکستان کےلیے انتہائی شفاف اور قابل قبول مردم و خانہ شماری کا انعقاد بہت ضروری ہو گیا ہے ۔ اس سے پاکستان کو اپنی معاشی منصوبہ بندی کرنے میں مدد ملے گی اور پاکستان کی سیاست میں بھی بڑی اور مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
تازہ ترین