• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”انکل کیا حال ہیں آپ کے ؟“
”ہائے اللہ ، میں تمہیں انکل لگتی ہوں ؟“
”سوری ، کنفیوژ ہو گیا تھا، کیا حال ہے آنٹی آپ کا ؟“
”ہائے ہائے میں تمہیں آنٹی لگتی ہوں، عمر میں تم سے ایک دو سال چھوٹی ہی ہوں گی “
”ایک دفعہ پھر معذرت چاہتا ہوں، مس کیسی ہیں آپ ؟“
”میں تو ٹھیک ہوں لیکن تمہارے کالم ٹھیک نہیں جا رہے ”
”کیوں، کیا ہوا میرے کالموں کو ؟“
”تمہیں سارے ملک میں نواز شریف اور عمران خان ہی نظر آتے ہیں ہم لوگ نظر نہیں آتے ؟ “
” کیوں نہیں نظر آتے لیکن ان دنوں پنجاب میں یہ لوگ ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں، اس لئے انہی کو موضوع بنا رہا ہوں“
” یہ عمران خان میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں، جو تم اس کے قصیدے پڑھتے رہتے “
”عمران خان قوم کی تقدیر بدل دے گا میں خدا بخش “
”تو کیا ہم لوگ قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتے ؟ “
” کیوں نہیں لیکن آپ کا تو کوئی گرو سیاست میں نہیں“
”یہ تو تمہاری بے خبری کا عالم ہے، ہمارے طبقے کے کتنے ہی لوگ سیاست میں ہیں، اور تم کو وہ دکھائی نہیں دیتے “
” یہ تو واقعی میرے لئے خبر ہے، آپ مجھے فوراً ان کے نام بتائیں“
” نام بتاؤں ، تم نہیں جانتے انہیں ؟“
” میں واقعی نہیں جانتا “
” اب اتنے بھولے بھی نہ بنو ، روزانہ ان کے اتنے بڑے بڑے بیانات اخباروں میں شائع ہوتے ہیں“
” بیانات اخباروں میں شائع ہوتے ہیں ؟ میں تو روزانہ تقریباً سارے اخبارات پڑھتا ہوں، میری نظروں سے تو ”کسی “ کا بیان نہیں گزرا“
” قربان جاؤں تمہاری سادگی کے، گویا تم بھی ان لوگوں میں سے ہو جو ملک میں ہماری آبادی کم کرکے دکھانا چاہتے ہیں تاکہ ہمیں ہمارے حقوق سے محروم رکھا جا سکے“
” میں سمجھا نہیں “ ”میں سمجھاتا ہوں تمہیں “
ہمیں ؟”سمجھاتی “ کی بجائے ”سمجھاتا “ یہ آج آپ کو کیا ہو گیا ؟”میں تمہیں ابھی بتاتا ہوں ؟ “
” نہیں مس فار گاڈسیک، ڈیما سٹریٹ کرنے کی ضرورت نہیں ، آپ زبانی بتائیں مجھے آپ پر اعتبار ہے، اوہ خدایا !“
” آ گیا نا اعتبار، تو ہیجڑے صرف ”ویسے “ ہی نہیں ”ایسے “ ہی ہوتے ہیں اور تم انہیں مسلسل نظر انداز کر رہے ہو“
” میں سمجھ گیا مس، لیکن آپ کس پارٹی کے ہیجڑوں کی بات کر رہی ہو “
” سبھی پارٹیاں میرے مدنظر ہیں، تم کسی کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر رہے “
” میرا خیال ہے میں ایسا نہیں کر رہا، میں نے تو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی اسمبلی کے ارکان سے مرحوم ضیاء الحق اور اس کے بعد ”مرحوم“ پرویز مشرف تک کے ہیجڑوں کے قصیدے لکھے پھر بے نظیر اور نواز شریف کے عہد کے ممتاز اور برگزیدہ، ہیجڑے بھی میرے پسندیدہ موضوع رہے ہیں۔ میری طرح ہماری قوم نے بھی اس طبقے کے ساتھ کبھی بے انصافی نہیں کی چنانچہ ان اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی ان کی کل آبادی کے تناسب سے زیادہ رہی ہے “
” واقعی ؟ ویسے تمہارا کس پارٹی سے تعلق ہے ؟“
” بہت افسوس کی بات ہے ۔ پھوپھی بخش …“
”پھر وہی پھوپھی، میں تمہیں پھوپھی لگتی ہوں ؟ “
” تو اور کیا ہو، ابھی تک تم نے مجھے پہچانا جو نہیں میں تو اتنی دیر سے تمہارے حافظے کو آزما رہی تھی مجھے غور سے دیکھو میں باجی عبدالغفور ہوں“
” ہائے میں صدقے جاؤں، میں واری جاؤں، تمہارے کالم تو میں بڑے شوق سے پڑھتی ہوں، تم نے ہر حکومت جانے کے بعد اس کے بارے میں سخت کالم لکھے ہیں لیکن تم بھولی بہت ہو!“
” وہ کیسے پھوپھی خدا بخش ؟“
” نواز شریف برسر اقتدار تھا تو اس نے کہا ملک نے اقتصادی طور پر بہت ترقی کی ہے، تم نے اس پر یقین کر لیا ہے اور لکھا کہ ہاں واقعی ترقی کی ہے، امریکہ نے نواز شریف کو ہٹا کر اپنے تحصیلدار قرقی معین قریشی کو بطور وزیر اعظم پاکستان بھیجا اور اس نے نواز شریف کی اکنامک پالیسی کی تعریف کی اور کہا ہم یہ پالیسی جاری رکھیں گے تم نے یقین کر لیا پھر اس نے کہا نواز شریف حکومت اقتصادی طور پر دیوالیہ ہو چکی تھی، تم نے اس پر بھی یقین کر لیا ۔اور کہا ہاں واقعی دیوالیہ ہو چکی تھی ۔پرویز مشرف آیا تو اس کو خوش کرنے کے لئے تم نے نواز شریف کو غدار قرار دے دیا اور آج کل تم پھر اس کے لتے لے رہے ہو اتنے گندے گندے الزام لگاتے ہو اس پر میری جاں اتنی آسانی سے لوگوں کی باتوں میں نہ آ جایا کرو، یہ موئے مرد بڑے بے ایمان ہوتے ہیں ایسے ہی نقصان کرا بیٹھو گی!“
” وہ کیسے پھوپھی ، خدا بخش ؟“
” ہائے اللہ کتنی ناسمجھ ہو تم، اگر نواز شریف پھر برسراقتدار آ گیا تو ؟“
” نا سمجھ، باجی عبد الغفور نہیں، پھوپھی خدا بخش تم ہو، اگر نواز شریف برسراقتدار آ گیا تو کیا اسے پھر ہماری ضرورت نہیں پڑے گی، گزشتہ 65برس میں کون سی حکومت ایسی آئی ہے جسے باجی عبدالغفور جیسے کالم نگاروں کی ضرورت نہیں پڑی ؟“
” در در جاکر ڈھول جیسی پھٹی آواز میں مبارک بادیاں گا گا کر سو پچاس روپے کی ودھائیاں وصول کرنے سے بہتر ہے کہ تم بھی کالم نگار بن جاؤ، آخرت تو خراب ہے ہی، کیوں اپنی دنیا بھی خراب کرتی ہو پھوپھی خدا بخش ؟“
تازہ ترین