• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال اکتوبر کامہینہ سائبر سیکیورٹی کی آگاہی کے طورپر منایا جاتاہے۔ سائبر سے جڑے ہر قسم کے مسائل اور جرائم سے نپٹنے اور انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کے لیے تھیم پیش کی جاتی ہے اور اس ضمن میں ہر قسم کی پیش رفت کو عوام کے سامنے لایا جاتاہے۔

بہت سی چیزیں ہم سب کو بھی معلوم ہیں اور ہم ان پر عمل بھی کرتے ہیں جیسے کہ اپنا آئی ڈی، پاس ورڈ اور کریڈٹ کارڈز ہمیشہ محفوظ رکھیں، حتیٰ کہ قریبی لوگوں کو بھی ایڈیشنل کارڈ یا ایڈیشنل اکاؤنٹ کے ذریعے محدود رسائی فراہم کریں۔ کسی بھی پبلک کمپیوٹر جیسے سائبر کیفے، شاپنگ مال اور ایئر پورٹ پر بینک اکاؤنٹ استعمال کرنے سے گریز کریں کیونکہ کی بورڈ لاگنگ اور ہاٹ اسپاٹ مانیٹرنگ ٹولز کے ذریعے آپ کے اکاؤنٹ کی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ غیر محفوظ یا غیر مقبول ویب سائٹس سے شاپنگ کرتے ہوئے اپنا ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ استعمال نہ کریں۔ ایسی ویب سائٹس پر شاپنگ کرنے کے لیے پے گیٹ وے جیسے پے پال، گوگل چیک آؤٹ یا ورچوئل کارڈ استعمال کریں۔ اپنا آن لائن اکاؤنٹ روزانہ یا پھر ایسا ممکن نہ ہوتو ہفتے میں دو سے تین دفعہ ضرور چیک کریں تاکہ تمام ٹرانزیکشنز پر نظر رکھی جاسکے۔

تاہم اگر ہم بیرون ملک سفر کررہے ہیں تو اور بھی زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سفر کرتـے وقـت آپ ہمیشہ یہ سمجھیں کہ آپ جس نیـٹ ورک سے بھی منسلک ہورہـے ہیں وہ ناقابِل بھروسہ ہے۔ آپ کو یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ جس نیٹ ورک سے آپ منسلک ہیں اسے کس قسم کے خطرات لاحق ہیں۔ آپ سفر شروع کریں تو اپنے گیجٹس کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ مثال کے طور پر اپنے گیجٹس کو کبھی بھی گاڑی میں ایسی جگہ پر نہ چھوڑیں، جہاں لوگ آسانی سے اُسے دیکھ سکیں کیونکہ مجرم بآسانی آپ کی گاڑی کے شیشے توڑ کر کسی بھی قیمتی چیز کو چُرا سکتے ہیں۔ سفر کے دوران عوامی وائی فائی جیسے کہ ہوٹل میں، مقامی کافی کی دکان میں یا پھر ایئرپورٹ کے ایکسس پوائنٹ کو استعمال کرنے سے بھی آپ مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں کیونکہ عوامی وائی فائی ایکسس پوائنٹس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُسے کس نے لگایا ہے بلکہ آپ کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اُس سے کون کون منسلک ہے۔ اس لیے انہیں ناقابل بھروسہ سمجھنا چاہیے۔ اگرپھر بھی آپ عوامی وائی فائی استعمال کرتـے ہیں تو اس بات کی یقین دہانی کرلیں کہ آپ کی تمام آن لائن سرگرمی انکرپٹڈ ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ براؤزر کے ذریعے انٹرنیٹ سے منسلک ہوتے ہیں تو آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ جس ویـب سائٹ پر آپ جارہے ہیں، وہ انکرپٹڈ ہـے۔ اُس ویـب سائٹ کے URLمیں ’’//https:›‘‘ لکھا ہوگا اور ایک بند تالے کی تصویر ہوگی۔

کوئی آلہ گم یا چوری ہوجائے تو اپنے تمام موبائل آلات کو انکرپٹ کردیں۔ کچھ آلات، جیسے کہ آئی فون میں اگر آپ پاس ورڈ یا پاس کوڈ لگاتـے ہیں تو انکرپشن خودکار طور پر فعال ہوجاتی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنے پاس اپنے تمام آلات کا مکمل بیک اَپ حاصل کر لیں گے۔

عام حالات کی بات کریں تو سائبر سیکیورٹی ہماری زندگیوں کا ایک اہم پہلو بن گیا ہے کیونکہ ہم زیادہ تر اپنے کمپیوٹر اورموبائل فونز پر انحصار کرتے ہیں۔ پاکستان میں5کروڑ سے زیادہ براڈ بینڈ صارفین ہیں اور موبائل فون صارفین کی تعداد15کروڑ سے زائد ہے۔ کچھ مجرم عناصر اسی ورچوئل دنیا کو استعمال کرکے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں، جن کو سائبر کرائم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آج دنیا کے کئی ممالک میں سائبر کرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سخت قوانین رائج ہیں اور سائبر سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر نظام وضع کیے گئے ہیں ۔ آپ کو بھی چاہیے کہ سائبر کرائم کی صورت میں اس کو رپورٹ کریں اور ایک اچھے شہرے ہونے کا ثبوت دیں۔ پاکستان میں الیکٹرونک جرائم کی روک تھام کے لیے ایک قانون2016ء میں نافذ کیا کیا جاچکا ہے۔ اس لیے کسی قسم کے نقصان یا جرائم کی صورت میں لوگوں کو خاموش نہیںرہنا چاہیے اور سائبر جرائم کو رپورٹ کرنے کے لیے آگے آ نا چاہئے ۔ نئی آن لائن شکایت کی رپورٹنگ انتہائی آسان بنائی گئی ہے اور انٹرنیٹ کے جرائم کو مؤثر طریقے سے جواب دینے میں ایف آئی اے بھی تعاون کرتی ہے ۔

تازہ ترین