• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زمانہ قبل از تاریخ سے لے کر آج کے جدید دور کے جدید ترین ہونے کے دعوے دار ملکوں تک ریاستیں، عدالتیں، جرگے، پنچائتیں، جاگیر دار، پیر اور پراہوت سب اپنا دبدبہ اور کنٹرول برقرار رکھنے کے لئے سزائے موت کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں۔ یہ اِن مقتدر اداروں اور افراد کا انتقامی رویہ ہے یا انصاف، اِس پر بات کریں گے۔ لیکن اِس سے پہلے چند اُن زندگی چھیننے کے طریقہ ہائے کار پر غور کریں تاکہ ہم انسان کے اندر اُس قہاری جذبے کی رمز کو بھی سمجھ سکیں جو انسان کو اُس نہج پر پہنچا دیتی ہے۔ جب وہ دوسرے انسان کی جان لینا منصفی ہی نہیں بلکہ اِسے دیانتدار اور جبلی عمل سمجھتا ہے۔ قتل کی صورت میں تو افراد اور ادارے صرف انتقامی ہوتے ہیں۔ اس لئے قتل تو کسی بھی وحشیانہ طریقے سے کیا جا سکتا ہے، اس کا طریقہ کار متعین نہیں ہوتا۔ لیکن سزائے موت لفظ ہی سزا سے جڑا ہوا ہے اور سزا کسی غلطی یا جرم پر دی جاتی ہے۔ اس لئے اس کا طریقہ کار اُس سماج کی مروجہ روایت، عقائد اور قوانین سے منسلک ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں حکمران، عدالت یا اہل اختیار کسی فرد یا گروہ کے عمل کو اپنی قائم اتھارٹی سے متصادم سمجھتے تھے تو مجرم کو بھوکے وحشی جانوروں کے آگے کھانے کے لئے ڈال دیتے تھے۔ بھوکے شیر کے آگے ڈالنے کی روایت تو ہندوستان میں مغلیہ دور تک رائج رہی ہے۔ اس کے علاوہ زندہ انسان کو لکڑی کے تختے پر لٹکا کر اس کے جسم میں اُس وقت تک کیلیں پیوست کرتے رہنا جب تک وہ ہلاک نہ ہوجائے، بڑے بڑے لکڑی کے باکس میں زندہ انسان کو ڈال کے لمبے کیلوں والے ڈھکن سے ڈبہ بند کردینا جس سے ڈھکن کے تمام کیل جسم میں پیوست ہوجائیں۔ زندہ آگ میں ڈال دینا، آدھا جسم زمین میں گاڑھ کے پتھر مار مار کے مار دینا، تلوار سے سر قلم کرنا، ایک ایک کرکے جسم کے اعضا کاٹنا، گردن میں رسی ڈال کے لٹکا دینا، بجلی کے جھٹکے سے مار دینا، گیس چیمبر میں ڈال دینا، فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے گولیوں سے چھلنی کردینا، زندہ زمین میں دفن کردینا جیسے چند ایسے حربے ہیں جو ریاستیں اور عدالتیں قانون کے مجرموں اور اپنے مخالفین کو سزا کا مرتکب قرار دے کر موت دینے کے لئے استعمال میں لاتے ہیں۔ لیکن کیا اِس سزا سے یہ مقصد پورا ہوجاتا ہے کہ وہی جرم دوبارہ نہ ہو، جس کے سرزد ہونے پر مجرم کو اپنی زندگی کے حق سے محروم ہونا پڑا اور کیا ایسا کرنے سے قانون کی دھاک ایسی جگہ کرلیتی ہے کہ سزا کا تصور کرتے ہی کوئی جرم کرنے سے رک جائے۔ کسی بھی معاشرے میں ایسا نہیں ہوسکا بلکہ قارئین کی دلچسپی اور موضوع کی مناسبت سے اِس موقع پر اپنے جیل کے زمانے کے کئی ایسے واقعات ذہن میں آگئے جب کسی قاتل کو عدالت سے سزائے موت ہو کے آئی تھی تو میں نے ایسے 90 فیصد لوگوں کو دیکھا کہ وہ جیل میں داخل ہوتے ہی بہادری کا کوئی نعرہ لگاتے تھے اور اپنے طریقہ کار سے یہ ظاہر کرتے کہ سزائے موت معمولی بات ہے۔ دراصل پاکستان میں اِنصاف کا طریقہ کار اتنا طویل ہے کہ سیشن کورٹ سے لے کر ہائیکورٹ، سپریم کورٹ اور رحم کی اپیل تک کے مراحل اتنے طویل ہیں کہ آخری مرحلے تک پہنچنے میں سات آٹھ سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ جب پھانسی سے ایک روز قبل قیدی کی آخری ملاقات ہوتی ہے تو عزیز و اقارب صدمے سے نڈھال ہوتے ہیں اور قیدی نعرے لگا رہا ہوتا ہے اور انہیں حوصلہ دے رہا ہوتا ہے بلکہ اُس کال کوٹھری سے پھانسی گھاٹ تک کا سفر جو کہ صبح دن نکلنے سے پہلے پہلے مکمل ہوجاتا ہے۔ اُس میں دوسری بیرکوں میں بیٹھے لوگوں کو پھانسی چڑھنے والے کے نعروں کی آوازیں آرہی ہوتی ہیں اور لوگ ذکر کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے بڑی بہادری سے سولی لی ہے۔
اِس بات کا ذکر اس لئے کیا کہ یہ طریقہ سزا عرصہ دراز سے رائج ہے لیکن نہ سزا ختم ہوسکی نہ جرم۔ تو پھر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا سزا کے طور پر کسی انسان کو اُس کے حق زندگی سے محروم کردینا جائز ہے۔ ہم اِس بات کو قانونی طور پر نہیں بلکہ انسانی طور پر سمجھنا چاہتے ہیں۔ آج دنیا میں درجنوں ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت ختم کردی گئی ہے۔ جبکہ چند ممالک ایسے ہیں جہاں نہ صرف سزائے موت موجود ہیبلکہ اِس کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ دراصل سزائے موت قانونی اور مذہبی سے زیادہ سیاسی ایشو ہے لیکن اِسے استعمال قانون اور مذہب کے نام پر کیا جاتا ہے۔ تاہم سماجی انصاف سے اس کا تعلق کم نظر آتا ہے جب کسی کو سزائے موت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ اس کا وکیل کمزور تھا۔ گویا اچھا وکیل سزائے موت کو ٹال سکتا ہے۔ جس میں مہنگا وکیل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ وہ قانون کی گرفت میں آجاتا ہے۔ ایسا تو ہماری پاکستان کی عدالتوں میں روزانہ ہوتا رہتا ہے کہ مالی طور پر کمزور شخص انصاف کے پلڑے میں ہلکا ہی رہتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ طاقتور کے لئے قانون اور ہے اور کمزور کے لئے مختلف۔ تاہم جو لوگ ریاست اور کسی ادارے کے انتقام کا نشانہ بنتے ہیں وہاں مالی طاقت زیادہ کام نہیں آپاتی۔ کیونکہ وہاں آمر کو ریاستی جبر کی دھاک برقرار رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ دنیا میں جتنے بادشاہ گزرے ہیں اُن کی اکثریت سرقلم کرنے اور موت کے گھاٹ اتارنے کے دیگر ہتھکنڈوں کے استعمال کو اپنی شان سمجھتے تھے۔ سازش کرنے والوں کی آنکھیں نکال دینا یا اُن کے کوئی جسمانی اعضا کاٹ پھینکنا شاہی درباروں کا روز کا معمول ہوا کرتا تھا۔ مغل بادشاہ ہمایوں جو کہ رحمدل بادشاہ کے نام سے مشہور ہے تازہ تازہ سرقلم ہوتا دیکھنے کا شوقین تھا۔ کٹے ہوئے تازہ خون میں لت پت ٹنگے ہوئے سروں کا ملاحظہ کرنا اس کا ہفتہ وارانہ معمول تھا۔ یہ تمام بادشاہ ایسے ہی قاضی نامزد کیا کرتے تھے جو کہ زیادہ سے زیادہ سزائے موت تجویز کریں۔ کئی ممالک میں سزاؤں کا نظام آج بھی اُسی پرانے دور کی یاد تازہ رکھے ہوئے ہے اور اصلاحی Opitons پر کم غور کیا جاتا ہے اور مظلوم کی تشفی بھی اِس طریقہ انصاف کا ماخذ سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر قتل کے اسباب کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو سزائے موت کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکتا ہے لیکن یہ تو آئیڈیل بات ہے۔ جب ہوگی سو ہوگی۔ تاہم موجودہ حالات میں بھی کیا سزائے موت دینا درست ہے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ نہیں۔ ادلے کا بدلہ والا قانون معاشرے میں انتقامی جذبے کا خاتمہ نہیں ہونے دیتا اور قانون میں سقم ظالم کو محفوظ رکھتا ہے پھر کیا کیا جائے۔ قانون کی بالا دستی ریاست کا اولین مقصد ہوتا ہے۔ اس لئے سزائے موت کو سرے سے ہی قانون میں سے نکال دینا چاہئے۔ تاہم جس شخص نے اسطرح کا گھناؤنا جرم کیا ہے۔ جس کی آج کے قوانین ہی سزا موت ہے۔ اُسے ایسی عمر قید میں تبدیل کرنا چاہئے۔ جہاں وہ شخص مشقت کے طور پر تاحیات مظلوم کی فیملی کی کفالت کرے۔ وہ قاتل تمام عمر اپنی محنت کے پھل سے محروم رہے۔ جیلوں میں ایسے تعلیمی اور تربیتی ادارے بنائے جائیں جو اِن جرائم پیشہ افراد کا ذہن Mindset تبدیل کردیں اور انہیں اپنے کئے پر پچھتاوا ہونے لگے۔ پچھتاوے کے ساتھ طویل قید گزارنا جان لینے سے کہیں زیادہ موثر سزا ہے۔ قتل کے علاوہ دیگر تمام جرائم میں تو سزائے موت کا کوئی جواز ہی نہیں ہے وہ قانون کی صرف انتقامی شکل ہے۔ آج دنیا کے جن چند ممالک میں سب سے زیادہ سزائے موت کا استعمال ہے اُن میں چین، امریکہ، سعودی عرب، پاکستان، نائجیریا، کانگو، ایران اور یمن سرفہرست ہیں۔ تاہم دنیا میں سزائے موت کے خاتمے کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2010 میں دنیا کے صرف 21 ممالک میں سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا جبکہ 2011 میں 33 ممالک میں سزائے موت معاف کردی گئی۔ لیکن چین اور سعودی عرب میں گزشتہ برسوں میں سزائے موت دینے اور اس پر عمل درآمد میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی16 ریاستوں میں سزائے موت ختم کی جا چکی ہے۔ آج دنیا کے اکثریتی ممالک سزائے موت کے خاتمے کے حق میں ہیں اور سال بہ سال یہ حمایت بڑھ رہی ہے کیونکہ عمومی طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ مہذب معاشروں میں کسی بھی صورتحال میں اِس سزا کا خاتمہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ سزا نہ صرف زندگی کا حسن ختم کرتی ہے۔ بلکہ یہ ہے ہی غیر انسانی اور توہین آمیز عمل۔ جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ تاہم سوسائٹی کو بھی اُس مقام تک ذہنی طور پر بلند کرنا ضروری ہے۔ جہاں کم از کم ہر جاندار نہیں تو انسان کی زندگی کو اتنا اہم اور قیمتی سمجھا جائے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی جان لینے کا تصور ہی نہ کرے۔ ایسے معاشرے کا خواب کوئی انہونی اور ناممکن بات نہیں ہے۔
تازہ ترین