• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی میں لوگوں کے ساتھ کچھ ایسے واقعات بھی پیش آجاتے ہیں کہ جو پھر ساری عمر کے لیے ذہنوں پر نقش ہوجاتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ میں ان دنوں صوبہ بہار (پٹنہ) میں آٹھویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھا۔ 1948ء کا زمانہ تھا۔ والدین پاکستان ہجرت کے منصوبے بنارہے تھے، میں اپنے ماموں کے ساتھ محلّہ پیربہوڑ میں رہتا تھا۔ انہوں نے اسکول قریب ہونے کی وجہ سے مجھے اپنے پاس رکھا ہوا تھا، تعلیم کی ترویج اور دینی شعور اجاگر کرنے کے معاملے میں وہ ایک مثالی انسان تھے۔ بچپن ہی سے انہوں نے مجھے صوم و صلوٰۃ کا پابند بنادیا تھا، میرے اسکول کی تعلیم اور دیگرسرگرمیوں پر بھی ان کی گہری نظر رہتی تھی۔ فجر کی نماز کا میں اتنا عادی ہوچکا تھا کہ اگر کبھی نماز قضا ہوجاتی، تو رو رو کر بُرا حال کرلیتا تھا کہ وقت پر کیوں نہیں اٹھایا۔

ہفتے کی ایک شب میں اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں اس قدر محو ہوگیا کہ وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چل سکا۔ جب ماموں مجھے بلانے آئے، تو وہ بہت غصّے میں تھے، میں چپ چاپ ان کے ساتھ گھر آگیا، مگر دیرسے سونے کی وجہ سے فجر کی نماز قضا ہوگئی۔ میں نے جلدی جلدی وضو کیا اور مسجد کی طرف دوڑ لگادی، لیکن اس وقت تک جماعت ہوچکی تھی، میں نے کسی تاخیر کے بغیر نماز کی نیّت باندھ لی۔ اس دوران نمازی مسجد سے نکل کر اپنے گھروں کو روانہ ہورہے تھے۔ کچھ دیر بعد مسجد تقریباً خالی ہوگئی۔ اس چھوٹی سی مسجد کے امام صاحب نابینا تھے، وہ امامت کے ساتھ مسجد کی دیکھ بھال بھی کرتے تھے، عموماً تہجد کے وقت مسجد کی صفائی ستھرائی کرلیا کرتے تھے۔ نمازِ فجر کے بعد اچھی طرح اطمینان کرلیتے کہ مسجد میں اب کوئی نہیں ہے، تو مسجد کو باہر سے تالا لگا کر چلے جاتے تھے۔ ان کا یہ معمول تھا کہ تالا لگانے سے پہلے وہ دوتین بار اونچی آواز میں یہ صدا لگاتے ’’ہے کوئی مسجد کے اندر؟‘‘ اس روز بھی حسبِ معمول انہوں نے جب صدا لگائی، تو میں سجدے میں تھا، جواب نہیں دے سکا، لہٰذا وہ یہ سمجھ کر کہ مسجد میں کوئی نہیں ہے، مرکزی دروازے کو باہر سے تالا لگا کر گھر چلے گئے۔ اِدھر میں نماز پڑھ کر فارغ ہوا، تو خود کو پوری مسجد میں تنہا پاکر یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ میں مسجد میں قید ہوگیا ہوں۔ سراسیمگی کے عالم میں چاروں طرف گھوم پھر کر دیکھا، مگر باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل سکا۔ تھک ہار کر مسجد کے اندر آکر بیٹھ گیا۔ عموماً نماز کی ادائی کے بعد گھر جاکر ناشتاکیا کرتا تھا۔ لہٰذا بھوک سے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے۔ جب بھوک ناقابلِ برداشت ہوگئی توایک بار پھر اپنی جگہ سے اٹھا کہ شاید کسی جگہ سے دیوار پھلانگ کر باہر نکل سکوں، صبح کے نو بج چکے تھے، مگر میرے باہر نکلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ بے مقصد اِدھر اُدھر ٹکریں مارنے کے بعد واپس اندر آیا، تو حیرت انگیز طور پر گرم گرم جلیبیوں کی تازہ مہک میرے نتھنوں سے ٹکرائی، میں نے یہ خیال کیا کہ غالباً یہ خوشبو درگاہ شریف سے ہوا کے دوش پر آرہی ہوگی، کیوں کہ پیربہوڑ کی درگاہ کی دیوار، مسجد کی دیوار سے ملحق تھی اور خاصی اونچی بھی تھی، مگر جب اپنی جگہ پر پہنچا، تو ایک صاف ستھری پلیٹ میں جلیبیاں دیکھیں تو ٹھٹھک کر رہ گیا۔ اس کے ساتھ پانی سے بھرا ایک گلاس بھی رکھا تھا۔ میں اس سارے علاقے سے اچھی طرح واقف تھا۔ وہاں مٹھائی کی کوئی دکان آس پاس موجودنہیں تھی۔ ایک لمحے کے لیے مجھے ڈر محسوس ہوا، کیوں کہ میں ساری مسجد کھنگال چکا تھا۔ اندر میرے سوا کوئی دوسرا موجود نہیں تھا۔ اس ڈر پر بھوک غالب آگئی۔ میں نے پلیٹ سے ایک جلیبی اٹھالی، مگر انتہائی گرم ہونے کی وجہ سے اسے دوبارہ پلیٹ میں رکھ دیا۔ ایسا لگ رہا تھا، جیسے انہیں ابھی ابھی گرم کڑاہی میں کھولتے تیل سے نکال کر رکھا گیا ہو۔ بہرحال، گرما گرم جلیبیوں کی میٹھی مہک نے مجھےہر خوف سے بے نیاز کرکے انہیںکھانے پر مجھے مجبور کردیا اورمَیں ایک ایک کرکے وہ پائو بھر جلیبیاں کو منٹوں میں چَٹ کرگیا۔ اتنی خستہ اور رسیلی جلیبیاں میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں کھائی تھیں۔ حالاں کہ اس علاقے میں تھوڑی دورمٹھائی کی جو دکانیں تھیں، ان کے ذائقے میں خوب پہچانتا تھا، یوں بھی سب مٹھائیوں میں مجھے جلیبی ہی بہت پسند تھی۔ تاہم، یہ ہمارے علاقے کی دکانوں کی جلیبیاں ہرگز نہیں تھیں۔ انہیں کھاکر میں نے غٹاغٹ پانی حلق میں اتارا تو یوں محسوس ہوا، جیسے دماغ کی ساری بند بتیاں روشن ہوگئی ہوں۔

برتن وہیں چھوڑ کر میں ایک نئے عزم اور جوش سے اٹھا، دفعتاً ایک قدرے نیم تاریک کونے میں سیڑھیاں نظر آگئیں، جو یقینی طور پر چھت پر جاتی ہوں گی۔ یہ سوچ کر میں ان سیڑھیوں پر چڑھتا چلا گیا۔ میرا خیال صحیح تھا، میں قدرے اونچی منڈیروں والی چھت پر پہنچ گیا، جہاں مسجد کی مرمّت وغیرہ کے لیے کچھ تعمیراتی سامان رکھا ہوا تھا، وہاں سے میں نے چند اینٹیں اٹھائیں اور انہیں منڈیروں کے پاس لاکر اوپر تلے چن دیا اور ان پر چڑھ کر منڈیر سے نیچے جھانکا، جہاں لوگوں کی آمد و رفت شروع ہوچکی تھی، میں نے چلاّ چلاّ کر انہیں اپنی طرف متوجّہ کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ خوش قسمتی سے جلد ہی میری کوشش کام یاب ہوگئی اور میرے ماموں کے ایک دوست کی نظر مجھ پر پڑگئی۔ میں نے اشارے سے انہیں اپنا مسئلہ بتایا، تو وہ فوراً امام مسجد کے گھرگئے، انہیں اپنے ساتھ لے کر آئے۔ اس طرح مجھے باہر نکالا گیا۔ میں نے سب لوگوں کے سامنےانہیں سارا واقعہ سنایا، لیکن کسی کو یقین نہیں آیا، تو میں انہیں اندرلے آیا کہ جلیبی کی خالی پلیٹ اور پانی کا گلاس دکھا سکوں۔ مگر یہ دیکھ کر میری حیرانی کی انتہانہ رہی کہ وہاں سے دونوں برتن غائب تھے۔ اہلِ محلّہ نے مسجد اور چھت سب جگہیں چھان ماریں، لیکن پلیٹ ملی، نہ گلاس۔ دروازہ چوں کہ باہر سے بند تھا، اس کا قفل امام صاحب نے خود آکر کھولا تھا، اس لیے کسی کا اندر آکر جلیبیاں رکھ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ بہرحال، بہت کم لوگوں نے میری بات پر یقین کیا۔ گھر میں بھی میرا مذاق ہی بنا، البتہ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ کوئی کرامت بھی ہوسکتی تھی۔

سچ کچھ بھی ہو، مگریہ حقیقت صرف میں ہی جانتا ہوں کہ وہ کوئی خواب نہیں تھا، میں نے جب جلیبی اٹھائی تھی، تو وہ اتنی گرم تھی کہ میری انگلیوں کے پور جلنے لگے تھے اور یہ جلن مجھے سارا دن محسوس ہوتی رہی تھی، جلیبیاں کھا کر اور پانی پی کر جو توانائی اورترو تازگی میرے جسم آئی، وہ شام تک قائم رہی، حتیٰ کہ میں نے دوپہر کا کھانا کھایا، نہ رات کو بھوک محسوس ہوئی اور چوں کہ اس واقعے کی صداقت صرف میں ہی جانتا تھا، لہٰذا آج تک مَیںاسے بھلا نہیں سکا۔ (احمد علی، کراچی)

تازہ ترین