• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کو اب بھی پاکستان و افغانستان میں جمی کارٹر کی پالیسی کے اثرات کا سامنا

نیویارک (تجزیہ :عظیم ایم میاں) امریکا کے 39؍ ویں صدر آنجہانی جمی کارٹر کی سرکاری آخری رسومات دارالحکومت واشنگٹن میں ادا کرنے کے بعد ان کی میت کو جمی کارٹر کے آبائی قصبے لے جا کران کی اہلیہ روز لین کارٹر کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔ دنیا کو ااج بھی پاکستان و افغانستان میں جمی کارٹر کی پالیسی کے اثرات کا سامنا ہے، اسرائیل مصر امن معاہدہ پر گہری نظر رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے اس معاہدہ کے اثرات کے تناظر میں معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے ’’سفید ہاتھی‘‘اور انوارالسادات کا ذکر عوامی انداز میں راولپنڈی کے اجتماع میں کیا تو پاکستان کے نیوکلیئرپروگرام کےبانی ذوالفقار علی بھٹو سے جمی کارٹر انتظامیہ ناراض ہوگئی اورحالات بدلتے ہوئے 4؍ جولائی کی رات ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمہ اور ضیاء الحق کے مارشل لاء کی صورت اختیار کرگئے ۔اس دور کی خفیہ امریکی دستاویزات اب ڈی کلاسیفائیڈ ہو کرمنظر عام پرآچکی ہیں۔ امریکی صدارت کی صرف چار سالہ معیاد مکمل کرکے سبکدوش ہو کر 44؍ سال سادہ زندگی گزار کر 100؍ سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہونےوالے ڈیموکریٹ امریکی صدر جمی کارٹر نہ صرف ایک سادہ مذہبی اور انسانیت کی خدمت، انسانی حقوق اورجمہوریت کے فروغ کے حامی تھے بلکہ ان کے دور صدارت کی عالمی سطح پر پالیسیوں کا محور بھی انسانی حقوق اور جمہوریت کےفروغ پر مرکوز تھا۔ انہوں نے 1977ء سے 1981ء تک کے عرصہ صدارت کے دوران مشرق وسطی، افغانستان اور پاکستان اور روسی کمیونزم کے بارے میں جو بھی پالیسیاں اختیار کیں دنیا آج تک ان پالیسیوں کے اثرات کا سامنا کررہی ہے۔ افغانستان میں کمیونسٹ سوویت یونین کی برتری اور یلغار کو روکنے کے لئے جمی کارٹر نے جب پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق سے تعاون کیلئے 400؍ ملین ڈالرز کی امداد کی پیشکش کی تو جنرل ضیاء الحق نے اس امداد کو ’’مونگ پھلی کے دانے‘‘ کہہ کر مسترد کردیا کیونکہ صدرجمی کارٹر اپنے آبائی علاقہ میں مونگ پھلی کے کاشتکار تھے اور ضیاء الحق کے استعمال کردہ اس امریکی محاورہ کا مطلب بھی خوب سمجھتے تھے۔جمی کارٹر اور ضیاء الحق کے دو ر میں پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر استعمال کرکے افغانستان میں ’’مجاہدین‘‘ کے ذریعے روسی یلغار کےخلاف جس جنگ کا آغاز کیا گیا اور اس جہاد کو لڑنے و الے مجاہدین کہلانے کے بعد طالبان اور دہشت گردی کے خلاف 20؍ سال تک امریکا کی براہ راست افغانستان میں جنگ کی تلخ تاریخ اور پاکستان پرموجودہ اثرات کا پہلا اور بنیادی باب جمی کارٹر کی صدارت کے دور میں لکھا گیا اور افغانستان میں روس کی پسپائی کے ساتھ ہی جنگ سے تباہ شدہ افغانستان کو اسی حالت میں چھوڑ کر امریکی مفادات کی تکمیل کے ساتھ ہی امریکانے دستبرداری اختیار کرکے تمام نتائج و اثرات سمیت پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔ صدر جمی کارٹر امن انسانی حقوق اور جمہوریت کے فروغ کی عالمی پالیسی پر زور دیتے رہے اور اسی حوالے سےاسرائیلی وزیراعظم مناخن بیگن اور مصر کے صدر انوارالسادات کے درمیان امن کا معاہدہ بھی کروادیا لیکن مشرق وسطی میں دشمنی کی سلگتی آگ کا علاج نہ کیا جس کے تسلسل میں آج اس آگ نے غزہ، لبنان، شام سمیت پورے مشرق وسطی کو تاریخی تباہی میں دھکیل رکھا ہے۔

اہم خبریں سے مزید