• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برادرانِ یوسف کا دور قدیم ہے بھی اور نہیں بھی۔ اصطلاحاً بھی اور اصلاً بھی…
کھچا کھچ بھرے آڈیٹو ریم میں 20منٹ کی تقریر کے بعد 40منٹ کے سوالات۔ میں نے حاضرین کی اجازت سے سوال اُٹھایا کہ کیا اس ضلع میں ارب پتی لوگ ہیں؟ جواب تھا ہر محلّے میں ہیں اور کروڑ پتی تو دودھ پتی جتنے ہیں پھر لوگ ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ 20کروڑ کی آبادی میں سے دس لاکھ سے بھی کم لو گ ٹیکس دیں اور توقع ہو امریکہ، برطانیہ ، فرانس یا برونائی، ملائیشیا اور کویت جیسی سہولتوں کی۔ جہاں سانس لینے کے علاوہ ہر چیز پر ٹیکس ہے۔ پانی پٹرول سے مہنگا اور ٹیکس چوری جان لینے جتنا شدید جرم بھی۔
پاکستان کے کسی بھی گلی، محلے یا شہر کے چوک میں دیکھ لیجئے ٹرانسپورٹ کا اژدھام اور ٹریفک جام آپ کا استقبال کرے گا ۔ یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ رَش گھوڑا گاڑیوں سے نہیں بلکہ موٹر گاڑیوں کا ہے۔کو ئی بھی کار پانی اور ہوا سے نہیں گیس،ڈیزل اور پٹرول سے چلتی ہے۔ کروڑوں موٹر کاریں چلانے والے رجسٹرڈ گاڑیوں والے بھی ٹیکس نہیں دیتے ۔ پاکستان کی وزارت ِخزانہ، فیڈرل بیورو آف ریونیو اور ٹیکس بیورو کریسی کو ملا کر کھانے پینے کو نیشنلائز کر کے نئی "وزارتِ کھانا "بنا دینی چاہئے کیونکہ اِن سب کا فو کس اُن کو کھانا ہے جو ٹیکس نیٹ میں آچکے ہیں مگر ملک کے اُن برادرانِ یوسف کی طرف دیکھنا نہیں جن کی بڑی بڑی جیبوں سے "مونگ پھلی کا دانہ" برآمد کیا جا سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب ملک کے اندر سے، مالیات متحرک کرنے کا نظام ہی موجود نہ ہو اور نہ ہی اس کی کوئی فوری آس امید لگائی جا سکے، ایسے میں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ کون نہیں جانتا کہ پڑوسی ملک میں 1948ء کی زرعی اصلاحات کے بعد بڑے سے بڑا زمیندار، جاگیردار اور سرمایہ دار یا "بِرلا ، ٹَا ٹَا"جیسا صنعت کار بھی 25/ایکڑ سے زیادہ زمین نہیں رکھ سکتا؟ ہمارے ہاں آدھے سے زیادہ پاکستان چند لو گوں کی پرائیویٹ ملکیت میں ہے حالانکہ پاکستان کی اساسی دستاویز 1973ء کے آئین میں اجارہ داریوں پر آئینی قدغن اور دستوری پابندی لگائی گئی ہے مگر یہ مظلوم آئین بھی مظلوم عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ طاقت والے اسے چند صفحوں کی بے وقعت کتاب کہتے اور مزید طاقت والے اسے موم کی مردہ ناک سمجھتے ہیں۔ جسے طاقت کی من مرضی سے جھنجھوڑا ، مروڑا یا توڑا جا سکتا ہے۔
شاید بہت ساروں کے لئے یہ خبر ہو کہ پاکستان ، ایشیاء کا وہ واحد ملک ہے جہاں سرکاری طور پر نہ تو بادشاہت ہے نہ ہی آفیشلی کسی کو شہزادے کا درجہ دیا جا سکتا ہے مگر یہاں لاکھوں ایکڑ اراضی اور ہزاروں زرعی مربع جات کے مالک موجود ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ مگر ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کی ٹوڈی جاگیرداریاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی مہربانی اور شخصی ریاستیں مغل دور کی نوازشات کی یادگاریں ہیں ورنہ ہم سارے ایک جیسے ہیں۔ آج پاکستان کا سب سے بڑا دشمن سرمایہ دارانہ نظام، پاکستان کی سب سے بڑی بیماری جاگیردارانہ ذہنیت ، پاکستا نیوں کیلئے سب سے بڑا خطرہ چور بازاری کا مسلسل حملہ ہے۔ غریبوں کے اس ملک میں ہمیشہ غریب جیالوں نے قربانیاں دیں جبکہ عوام کی ان قربانیوں کا پھل بڑے بڑے دلالوں کے حصے میں آیا۔
بھوکوں اور گوشت خوروں کے درمیان پاکستان کے سیاسی لینڈ اسکیپ کا سب سے بڑا یُدھ مسلسل 65سالوں سے چل رہا ہے۔ اس کا منطقی انجام عوام کی آخری فتح کے علاوہ کچھ نہیں لیکن 65سال بعد پاکستان کی ریاستی اور سیاستی تاریخ ایک ایسے موڑ پر آ پہنچی ہے جسے مُمَفس کا شہر یا بازار ِ مصر کہا جا سکتا ہے۔ جس کا ذکر حضرتِ یو سف  کا تاریخی حوالہ ہے۔ اس حوالے کی بنیاد جلیل القدر پیغمبر حضرت یعقوب  کے بیٹے ،حضرت اسحاق  کے پوتے اور حضرت ابراہیم  کے پڑ پو تے کے بے مروت بھائیوں کی ظالمانہ بے وفائی کی واردات ہے ۔ اس واقعے کو قرآن حکیم نے "احسن القصص"یعنی بہترین قصّہ قرار دیا ہے۔ برادرانِ یوسف کی بے وفائی کا وقوعہ 906ق م میں حضرت یوسف  کی پیدائش سے شروع ہوا اور برادرانِ یوسف نے اسے914 ق م میں فلسطین کے شہر نابلوس کے پاس سکم کے دوتن نامی علاقے کے کنویں میں پھینکا جہاں سے انہیں نیل کے کنارے قاہرہ کے جنوب میں 30کلو میٹر کے فاصلے پر مُمَفس یا بازارِ مصر لا کر فروخت کیا گیا ۔ حضرت یوسف  نے دوتن کے کنویں میں تین دن گزارے اور پھر مالک بِن ذعر خزاعی نے انہیں کنویں سے نکالا۔
پاکستان کے جری مگر غریب عوام 65سال سے ایک ایسے کنویں میں گرے ہو ئے ہیں جہاں سے انہیں خود نکلنا ہے۔ اب وہ موقع محض سو دن بعد ان کے سامنے ہو گا جب وہ برادری ازم ، علاقا ئیت ، نسل پرستی ، جذباتیت، شخص پرستی کے بتوں کو توڑ کر اپنی تقدیر اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں مجھے 15دسمبر 2012ء سے29جنوری 2013ء تک کا وقت رکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس دوران اگر سورج نے اپنا راستہ نہ بدلا اور چاند نے اپنا محور نہ چھوڑا تو پاکستان میں نئے رجسٹرڈ شدہ 3کروڑ ووٹرز ملک کو تبدیلی کے سفر پر ڈال سکتے ہیں۔ پاکستان کا غریب یوسف کنعان کے کنویں میں گرا پڑا ہے جبکہ اس کے ہمدرد بھائی اس کا کُرتہ اتار کر دوتن کے اس کنویں پر مشغول ِ آہ و زاری اور نوحہ کُناں ہیں جہاں انہوں نے یوسف ِ بے کارواں کو خود پھینکا ہے۔ خواہش تھی کہ نئے سیاسی منظر نامے میں نئے کھلاڑی اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کریں گے اور انتخابی نتائج کو تسلیم کیا جائے گا لیکن برادرانِ یوسف نے ابھی سے جھوٹی اناوٴں کی شکست کو انتخابی دھاندلی اور اپنے ہی لو گو ں کے احتسابی نعروں کے خوف سے ڈرائنگ روموں میں بند سازشی بدبودار سیاست کے معروف مگر مکروہ چہروں کی کھلی پسپائی کو "غریبوں کی غلطی"بنا کر پیش کرنے کا زور لگانا شروع کر دیا ہے۔ گریبان ہو تو اس میں کو ئی جھانکے گا۔
اسلام آبادکی بڑی غلام گردشوں میں بڑے جوتوں کے پالشیے آوازیں لگاتے اور ڈبے کھٹکھٹاتے پھرتے ہیں مگر ان برادرانِ یوسف میں سے کوئی بھی دوتن کے کنویں میں اترنے کے لئے تیار نہیں۔ فرض کریں 15سے 25فیصد پارلیمانی برج گر جائیں یا منتخب ایوانوں میں بیٹھنے والوں کی سائیڈ بائیں سے دائیں یا دائیں سے بائیں تبدیل ہو جائے تو کون سا انقلاب آ جائے گا؟
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج سب با اختیار ہیں؟ چار بااختیار صوبوں اور ڈھیلے ڈھالے مرکز میں کو ن ایسا ہے جس نے اختیار کی "مے "نہیں چکھی؟ "اسٹیٹس کو" دیمک کی طرح ملکی اداروں کو چاٹ رہا ہے ۔ سیاسی بھرتیوں کے بل بوتے پر بنائی گئی صوبائی اور مرکزی درجے کی دو جہتی بیورو کریسی اور مقتدر خاندانوں کے رشتہ داروں پر مبنی پولیس فورس سمیت قانون و انصاف کے ذمہ دار ادارے سب سے کس قدر منصفانہ سلوک کر سکتے ہیں کون نہیں جانتا؟
ہاں انصاف سے یاد آیا، ابھی تو"پنجابی ڈیم "سے انصاف ہونا باقی ہے۔ لاہو ر ہائی کورٹ کے نفیس چیف جسٹس عمر الطاف بندیال نے کالا باغ ڈیم پر جو تاریخی فیصلہ دیا ہے اس پر عملدرآمد کا بنچ بنے گا یا توہین عدالت کی کارروائی ہو گی؟ اس کی خبر تو انصاف نگر سے مل سکتی ہے مگر وہ جنہیں صوبائی خود مختا ری سے گھن آتی ہے اور جو متفقہ ترامیم کو آئین کا بیڑا غرق کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں ایسے برادران ِ یوسف کی موجودگی میں بازارِ مصر کو سجنے سے کون روک سکتا ہے؟ شاید اسی لئے اسلام آباد میں کچھ لو گوں کو الیکشن ہوتا نظر آتا ہے اور کچھ کو نہیں نظر آتا۔ برادران ِ یوسف کے بازار کی گرمیاں اپنی جگہ لیکن الیکشن کو سلیکشن میں تبدیل کیا گیا تو پھر یہ ہماری تاریخ کا آخری الیکشن ہو گا۔ سلیکشن کی فہرستیں میرے ہاتھ میں تو نہیں،علم میں ضرور ہیں ۔ ویسے بھی فہرستوں کے نام پر خالصتان والوں کی فہرستیں یاد آجاتی ہیں اس لئے ان سے دست کشی ہی دانشمندی ہے۔
حبیب جالب نے اسٹیٹس کو کے پیٹ سے نظریہٴ ضرورت کی دائی کے ذریعے جنم لینے والے ایسے ہی "ٹیلرمیڈ" انقلاب پر یوں طنز کا تیر بے وجہ نہیں چلایا تھا
وہ ہو گئے وزیر شب ِ غم گزر گئی
غربت زدہ عوام کی قسمت سنور گئی
اب اُن کی گفتگو میں تحمل کی لہر ہے
جالب# اب اُن کے جوش کی ندّی اُتر گئی
تازہ ترین