• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1992ء میں انہی دنوں کی بات ہے کہ جب ہندو جتھوں نے اترپردیش کی سب سے بڑی مسجد بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ فیض آباد ڈسٹرکٹ میں واقع اس مسجد کو جو رام کوٹ ہل پر واقع تھی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہندوؤں کے ایک ہجوم نے حملہ کر کے راتوں رات کھنڈر میں بدل دیا۔ یہ مسجد 1527ء میں مغل بادشاہ بابر کے حکم پر تعمیر کی گئی تھی اور اسی کے نام پر اس مسجد کا نام رکھا گیا۔ اگرچہ ہندو تنظیموں نے انڈین سپریم کورٹ سے یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ اس مسجد کو نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایل کے ایڈوانی، مودی اور ان جیسے بے شمار لیڈروں نے ہندوؤں کو یہ کہہ کر اکسایا کہ یہ مسجد رام کی جنم بھومی پر بنائی گئی ہے اور اس کا توڑا جانا لازمی ہے۔ اس سے پہلے 1949ء میں ایک دن معجزاتی طور پر اس مسجد سے رام کی ایک مورتی برآمد ہوئی تھی جس پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ ہندوؤں نے اس کو کرشمہ قرار دیا لیکن مسلمان اس کو ہندوؤں کی ایک سازش قرار دیتے رہے۔ اس تنازع کی وجہ سے 1992ء کے بابری مسجد کو ڈھانے کے واقعہ تک ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا اس کی بنیاد پر بے شمار ہندو مذہبی اور سیاسی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ اس تمام نے ہندوستان کی سیاست کو بہت بری طرح متاثرکیا اس وقت ایڈوانی جیسے لیڈر ان فخر سے اپنے آپ کو اس واقعہ سے جڑا قرار دیتے تھے لیکن حالات بدل گئے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے ایک شمارے میں ایک کتاب کے مصنفین کرشنا جھا اور دھریندر جھا کے حوالے سے ایک آرٹیکل میں یہ کہا گیا ہے کہ 1949ء میں جب بابری مسجد میں حادثاتی طور پر مورتی برآمد ہوئی تو اس میں انہی لوگوں کا ہاتھ تھا جن پر مہاتما گاندھی کے قتل کا شبہ تھا۔ کتاب کے مصنفین کا دعویٰ ہے کہ تفصیلی تحقیق کے بعد وہ یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ 1949ء میں مسجد میں مورتی رکھنے والے کون لوگ تھے اور ان کے ارادے کیا تھے؟ مصنفین نے اس رات کی بھی تصویر کشی کی ہے جب راتوں رات بابری مسجد کو کھنڈر میں تبدیل کیا گیا اور بے شمار لوگ موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ کتاب میں اس سازش میں ضلع کی اعلیٰ انتظامیہ کو بھی شریک کیا گیا ہے۔ جب بابا ابھیرن داس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے موذن کو مار بھگایا اور قبضہ کرنے کے بعد یہاں مورتی رکھ دی تو انتظامیہ کے لوگ رات گئے آنے کے باوجود جان بوجھ کر اس واقعہ میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ انہوں نے ہندوؤں کو کھلی چھوٹ دی کہ وہ اپنی من مانی کارروائیاں کرتے رہیں۔ اس سازش میں ملوث ہندو مہاسبھا کو بھی کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ اس واقعہ سے متعلق پوسٹرز چھاپ کر اور اس کی تشہیر کر کے ہندوؤں کے جذبات کو ابھاریں۔
بابری مسجد کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے لیکن ”ایودھیا، دی ڈارک نائٹ“ لکھنے والے مصنفین کو شاباش ملنی چاہئے۔ یہ اسی طرح کے رائٹرز کی بدولت ہے کہ 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے ہندو مہاسبھا جیسی تنظیمیں اپنا تمام تر زور لگانے کے باوجود پنپ نہیں سکیں۔ آج ہندوستان کی سیاست ایک تبدیل ہوتی ہوئی سیاست ہے جس میں نریندر مودی اور ایل کے ایڈوانی جیسے لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ 1992ء میں جب بے شمار لوگ بابری مسجد کے ٹوٹے ہوئے گنبد پر کھڑے فتح کے نعرے لگا رہے تھے تو اس وقت ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ اس گھمنڈ میں مبتلا تھے کہ بھارت کی سیاست میں ہندو مہا سبھا کے خلاف تمام تنظیموں کو شکست دے لیں گے۔
آنے والے کچھ عرصہ میں سیاست میں ایسے لوگوں کا بہت اثر رہا۔ لیڈران ان سے دبتے رہے۔ دانشور یہی تجزیئے کرتے رہے کہ آنے والے دنوں میں سخت گیر ہندو ازم ہندوستان میں راج کرے گا لیکن دوسری طرف تاریخ دان سروپال گوپال کی تحریروں میں یہ خوف پایا جاتا تھا کہ سیکولرازم کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔ بابری مسجد کی شہادت نے اور اس کے نتیجے میں تباہ ہونے والی عمارات اور مسلمان شہادتوں نے سیکولر طبقے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا اور جیسا کہ میں نے پہلے لکھا کہ ”ایودھیا ، دی ڈارک نائٹ“ کے مصنفین نے بہت بڑا کام کیا کہ انہوں نے جھوٹ کے پردے کو پھاڑ کر لوگوں کو صحیح تصویر دکھائی۔ ایسا ہی بڑا کام ہندوستان میں بہت سے فلم ڈائریکٹروں نے بھی کیا۔ ان میں سے ایک بڑا نام نندتا داس اور فلم ”فراق“ کا ہے۔ فراق، صرف 24 گھنٹے پر محیط اس ایک بھیانک تجربے سے گزرتے لمحات کی کہانی ہے جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے صرف اس لئے کہ ان کا تعلق مسلمان طبقے سے ہے۔ فراق 5 جوڑوں کی کہانی ہے جس کے کردار کسی نہ کسی طرح ان ہنگاموں سے جڑے ہیں۔ یہ اگرچہ فکشن ہے لیکن اس کے پیچھے ہزاروں سچی کہانیوں کا درد ہے۔ کچھ لوگ ان حادثوں کا شکار ہوئے ہیں، کچھ حادثے بپا کرنے والے ہیں اور کچھ خاموش و مجبور رہ کر حالات گزارنے والے۔ گلیوں میں بھٹکتے یتیم ہو جانے والے بچے، اس قتال کے نتیجے میں بدلے لینے والے، بیوائیں اور درد سے تباہ حال لوگ۔ فراق میں نندتا داس نے مسلمانوں پر ہونے والے درد کو محسوس کرتے ہوئے بے مثال تخلیق کی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی اس شدت کی تخلیق اور ہندوؤں پر تنقید کو کھلے دل سے قبول کیا گیا۔ ایسا ہی بہت سی کتابوں کے معاملے میں ہوا۔
سیکولرازم کے حامیوں نے بغیر کسی ڈر اور خوف کے اپنی بات عوام تک پہنچائی اور یہ ان کی محنت اور لگن کا نتیجہ ہے کہ آج ایل کے ایڈوانی اور نریندر مودی جیسے لوگ اپنے آپ کو سیکولر لوگوں کے قریب ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہ سیکولر لوگوں کا کمال ہے کہ ان کے زیر اثر پاکستان کے دورے پر آئے ایل کے ایڈوانی نے قائد اعظم کے مزار کے دورے پر ان کے بارے میں یہ کہا کہ وہ سیکولر ریاست کے شدت سے حامی تھے۔
یہ اس اثر کی وجہ سے ہے کہ مصنف وی ایس نائیپال کی نظر میں بابری مسجد پر دھاوا بولنے والے افراد کا جذبہ ہندوستان میں پسپا ہو رہا ہے۔ نریندر مودی ایسے لوگ اب سیاست میں اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے اپنی منفی شہرت کو دور کرنے کی کوشش میں لگے ، مسلمانوں کے ووٹ اور دل جیتنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ سیکولر تنظیموں نے ایسا کام کیا ہے کہ جس ایودھیا میں ہندوؤں نے بلوے کر کے بابری مسجد کو شہید کیا حالیہ الیکشن میں اسی حلقے سے بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت اب سیکولرازم کی طرف بڑھتا ایک صنعتی اور ترقی پسند ملک ہے اس نے جنونیت کو کافی حد تک شکست دے دی ہے، اس سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی ترقی کرنے کے مواقع مل رہے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اب بھی وہاں بعض علاقوں میں اقلیتوں سے زیادتی ہو جاتی ہے لیکن مستقبل روشن لگتا ہے۔ نتیجہ یہی ہے کہ اگر ترقی کرنی ہے تو اقلیتوں کو بھی پنپنے کا موقع ملنا چاہئے۔ کیا قائد اعظم کا پیغام بھی یہی نہیں تھا؟ ہندوستان میں رہنے والے 20کروڑ مسلمان بھی ہم سے یہی چاہتے ہیں اگر ہم انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل دیں گے تو ان کا بھی فائدہ کرینگے۔ آخر ملائیشیا اور ترکی میں بھی تو اقلیتیں سکون سے رہتی ہیں اور ملکی ترقی میں برابر کا کردار ادا کرتی ہیں۔
تازہ ترین