• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں بجلی کی چوری کا مسئلہ وقت کے ساتھ سنگین ترین ہوتا جارہا ہے۔ ملک بھر میں نہ صرف گھریلو استعمال کے لئے بجلی پر ہاتھ صاف کیاجاتا ہے بلکہ جب کوئی کریک ڈائون ہو تو پتہ چلتا ہے کہ متعدد فیکٹریاں بھی ا س میں ملوث تھیں۔ ڈومیسٹک میٹر کا کمرشل استعمال عام ہے۔متعدد مرتبہ یہ بات سامنے آچکی کہ بجلی کی محض چوری روک لی جائے تو حالات میں کافی بہتری لائی جاسکتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت انرجی ٹاسک فورس کے اجلاس میں بھی یہی مسئلہ سامنے آیا جس پر وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے اور پاور سیکٹر میں چوری اور دیگر نقصانات کی وجہ سے صارفین پر پڑنے والے اضافی بوجھ کو ہٹانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ اجلاس میں بجلی چوروں کے خلاف فوری طور پر کریک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا۔ دریں اثناء وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ بجلی کے بلوں کی وصولی کا عمل بہتر بنانے تک بجلی کی قیمت نہیں بڑھانےدوں گا۔ وفاقی حکومت کا یہ عزم لائق ستائش ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے متعدد اقدامات کے باوجود یہ سلسلہ رک کیوں نہ سکا؟ اس کی ایک وجہ مختلف علاقوں میں دھونس سے بجلی کی چوری ہے اور دوسری وجہ کہ خود محکمے کا عملہ اس میں ملوث ہے۔ گزشتہ دور حکومت میںایک رائے یہ سامنے آئی تھی کہ بجلی کا سارا ترسیلی نظام فرسودہ ہوچکا اور قابل عمل رہنے کے لائق نہیں اسے سرے سے تبدیل کرنے کے لئے کچھ نجی کمپنیاں کام کریں گی۔ ترسیلی نظام بھی درست ہوگا اور سیل فون کی طرز پر بجلی کے استعمال کی پہلے سے ادا شدہ رقم کی سم بھی میسر ہوگی۔ اس سے بلاشبہ بجلی کی روک تھام ممکن تھی۔ یہ اب بھی ممکن ہے اور اس کے لئے وہی اقدامات روبہ عمل لانا ہوں گے جن کا وزیر اعظم نے انرجی ٹاسک فورس کے اجلاس میں نہ صرف عندیہ دیا بلکہ تاکید بھی کی کہ حکومت کو یہ مسئلہ حل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنا ہوگا ، کریک ڈائون کیلئے بھی ایسے لوگ کام پر لگائے جاتے ہیں جوخود ملوث نہ ہوں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین