لفظ صحافت سنتے ہی ذہن میں اخبار کا تصور ابھرتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی ہو یا جمہوریت کے استحکام کے مراحل، معاشرے میں علم و ادب کے فروغ کے معاملات ہوں اخبارات اور رسائل نے ہمیشہ اہم کردار ادا کئے۔ ملک میں سیاسی استحکام، معاشی ترقی، تجارتی سرگرمیوں کے فروغ، ثقافت کے تحفظ اور عادتِ مطالعہ کے فروغ میں اخبارات و رسائل کا کردار نمایاں ہے۔ اخباری اداروں کی اپنی معیشت حلقہ قارئین اور اشتہارات سے منسلک ہے۔ دنیا بھر میں صنعت، تجارت، زراعت، سیاحت، انٹرٹینمنٹ اور دیگر کئی شعبے پرنٹ میڈیا کو اشتہارات کی فراہمی کے بڑے ذرائع ہیں۔ پاکستان میں ان میں سے بعض شعبوں پر مشتمل پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ ساتھ پبلک سیکٹر یعنی حکومت بھی بڑے ایڈورٹائزرز میں شامل ہے۔
پاکستان کے اخباری اداروں کی نمائندہ تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (APNS) ہے۔ اس ادارے کے بنیادی فرائض رکن مطبوعات کے مفادات کا تحفظ، انہیں اے پی این ایس سے منظور شدہ (Accrediated) اشتہاری ایجنسیوں کے ذریعے ملنے والے اشتہارات کی رقوم کی ادائی یقینی بنانا ہے۔ اس لحاظ سے اے پی این ایس کا کردار ایک کلیئرنگ ہاؤس کا بھی ہے۔ حکومت پریس تعلقات اے پی این ایس کے ایجنڈے پر ہمیشہ ایک اہم نکتہ رہے ہیں۔ حکومت پریس تعلقات پر بحث میں پرنٹ میڈیا کے بارے میں حکومتی پالیسیوں، قانون سازی یا اخباری اداروں پر کسی وقت پڑنے والے حکومتی دباؤ پر بات ہوتی رہی ہے۔ اخبارات و رسائل کو سرکاری اشتہارات کی پالیسی، اشتہارات کے واجبات کی اخبارات کو ادائی بھی مخصوص موضوعات رہے ہیں۔ سرکاری اشتہارات سے ملنے والے ریونیو پر پاکستان کے چند بڑے اخبارات یعنی میٹرو پولیٹن Aاخبارات کا انحصار بیس سے تیس فیصد تک ہے۔ میٹرو پولیٹن Bاور علاقائی اخبارات کا اس ریونیو پر انحصار ستر سے اسی فیصد تک ہے۔ واضح رہے کہ ان میں اردو اور انگریزی کے علاوہ سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی، سرائیکی، براہوی، گجراتی اور دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے اخبارات بھی شامل ہیں۔ اردو اور انگریزی کے بعد سندھی زبان میں سب سے زیادہ اخبارات اور رسائل شائع ہو رہے ہیں۔ ملک میں اکنامک انڈیکیٹرز مثبت اشارے دے رہے ہوں، صنعتی، تجارتی سرگرمیوں میں تیزی ہو، خصوصاً تعمیراتی صنعت میں نئے نئے پروجیکٹس متعارف ہو رہے ہوں تو اخبارات و رسائل کو اشتہارات کا اجرا مناسب انداز سے جاری رہتا ہے۔
وطن عزیز میں اخبارات آج کل مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ صرف میٹرو پولیٹن Bاور علاقائی اخبارات ہی نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے اشتہارات میں کمی کے منفی اثرات اب بڑے اخباری اداروں میں بھی سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان میں اخبارات کی اشاعت کے لئے غیر ملکی کاغذ استعمال ہوتا ہے۔ پچھلے چند ماہ میں بین الاقوامی مارکیٹ میں نیوز پرنٹ کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی اخبارات ابھی نیوز پرنٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ہونے والے اثرات سے نمٹنے کے منصوبے بنا رہے تھے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بھی تیزی سے کمی ہو گئی۔ اس طرح اخبار کے بنیادی خام مال یعنی نیوز پرنٹ کی قیمت میں تقریباً دگنا اضافہ ہو گیا۔ طباعت میں استعمال ہونے والی دیگر کئی اشیاء بھی امپورٹ ہوتی ہیں، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ان کی درآمدی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ طباعتی لاگت میں جتنا اضافہ ہوا ہے اخبارات بوجوہ اپنی قیمت اس تناسب سے نہیں بڑھا سکتے۔ ایسے میں پرائیویٹ سیکٹر اور پبلک سیکٹر سے جاری ہونے والے اشتہارات میں کمی اور شائع شدہ اشتہارات کے اکثر واجبات کا نہ ملنا پاکستانی اخبارات و رسائل کے لئے شدید بحران بلکہ بقا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ ان مشکل حالات میں 16اکتوبر کو پاکستانی اخبارات کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے ایک وفد کی ملاقات وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ہوئی۔ اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون، سیکریٹری جنرل سرمد علی نے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی اور وزیراعظم کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ جمہوریت کے استحکام کے لئے پریس کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے بعد اخباری اداروں کو درپیش شدید مالی بحران سے وزیر اعظم کو آگاہ کیا۔ اے پی این ایس کے سینئر نائب صدر قاضی اسد عابد، محترمہ رمیزہ نظامی، مجیب الرحمٰن شامی، مہتاب خان عباسی، جمیل اطہر قاضی، ممتاز اے طاہر، وسیم احمد اور سردار خان نیازی نے بھی میٹرو پولیٹن علاقائی اخبارات اور رسائل کو درپیش مختلف پہلوؤں کو مزید واضح کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری، معاون خصوصی برائے میڈیا افتخار درانی، سینیٹر فیصل جاوید اور سیکریٹری اطلاعات شفقت جلیل بھی موجود تھے۔ اخباری اداروں کے نمائندگان کے بیان کردہ مسائل پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ انہیں سیاسی جدوجہد میں پرنٹ میڈیا کا بھرپور تعاون ملتا رہا۔ عمران خان نے واضح الفاظ میں کہا کہ آج میں جس مقام پر ہوں وہ میڈیا کا ہی مرہونِ منت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کرپشن کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت تباہ ہو چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایکسپورٹ میں تیز رفتار اضافے اور غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ترغیبات دیتے ہوئے ترسیلات زر میں اضافے کی پلاننگ کی جا رہی ہے۔ ان شاء اللہ ہم جلد ہی 30ارب ڈالر ایکسپورٹ اور ترسیلات زر میں 30ارب ڈالر کا اہداف حاصل کر لیں گے۔ اخبارات کو درپیش مسائل پر وزیراعظم نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی سربراہی میں ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ اگلے روز بدھ 17اکتوبر کو اے پی این ایس، کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹر (CPNE) اور پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوی ایشن(PBA) کے عہدہ داروں کے ایک مشترکہ وفد نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کو درپیش مسائل پر بات کی۔ اس موقع پر اے پی این اسی کے سیکریٹری جنرل سرمد علی نے وزیراعظم کو بتایا کہ نیوز پرنٹ پر پانچ فیصد امپورٹ ڈیوٹی عائد ہے، یہ رقم 15تا 18کروڑ سالانہ بنتی ہےجبکہ ود ہولڈنگ ٹیکس اس کے علاوہ ہے۔ سرمد علی نے کہا کہ اگر یہ ڈیوٹی اور ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دئیے جائیں تو اس سے اخبارات کو کچھ ریلیف مل جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس ملاقات میں کہا کہ پاکستان کی معیشت تباہ اور ادارے برباد ہو چکے ہیں؛ تاہم مثبت پالیسیوں کے ذریعے آئندہ چھ ماہ میں حالات کافی بہتر ہو جائیں گے۔ میٹنگ کے اختتام پر وزیراعظم نے اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون کو مخاطب کیا اور اعلان کیا کہ سرمد علی کی تجویز پر نیوز پرنٹ پر پانچ فیصد امپورٹ ڈیوٹی ختم کر رہا ہوں۔
پاکستان کی اقتصادی مشکلات کی وجوہات کئی غلط پالیسیوں میں پنہاں ہیں۔ غلط پالیسیوں کی اصلاح آسان کام نہیں ہے۔ وزیراعظم پر قوم نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ توقع ہے کہ عمران حکومت کم وقت میں اقتصادی حالات بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ پاکستان کی معاشی مضبوطی کے ثمرات عوام کے ہر طبقے تک پہنچیں گے۔ پرنٹ میڈیا عوام کی آواز، حکومت اور عوام کے درمیان موثر رابطے کا ایک ذریعہ ہے۔ پرنٹ میڈیا کو موجودہ مالی مشکلات سے نکالنا حکومت کی ترجیحات میں شامل کرنا ملک میں آزادیٔ اظہارِ رائے، جمہوریت کے استحکام اور علوم و فنون کے فروغ میں معاون ہو گا۔