• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان کا 50لاکھ گھروں کا منصوبہ سی پیک سے منسلک کرنا ایک احسن پیش رفت ہے۔ ان کے بقول یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس کے لئے چین ہماری مدد کرے گا۔ ہم وہاں سے سرمایہ کاری اورٹیکنالوجی بھی لے کر آئیں گے، پاکستان میں کاروبار کو آسان بنایا جائے گا۔ عمران خان نے کہا کہ ہماری پالیسی بڑی سیدھی او ر واضح ہے، ہم سرمایہ کاری اور کاروبار کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں گے، اسی سے بیروزگاری اور غربت کا خاتمہ ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں سرمایہ کاری ہو، فیکٹریاںبنیں اور ٹیکنالوجی کی منتقلی ہو اور چین کے ساتھ ہمارا تجارتی اور سرمایہ کاری کا رشتہ سی پیک کے ذریعے آگے بڑھتا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن ختم کئے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ چوری کے پیسوںکی منی لانڈرنگ نہیں ہونے دیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی کامیابی چین کو اپنے حلقہ احباب میں شامل کرنا تھا۔ یہ 1962کا سن تھا جب چین اور بھارت کے مابین جنگ چھڑ گئی تو پاکستان نے امریکی دبائو کے باوجود بھارت کا یہ کہہ کر ساتھ دینے سے انکار کردیا کہ جب تک مسئلہ کشمیر موجود ہے، پاکستان بھارت کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب چین اور پاکستان کی دوستی کی بنیاد پڑی جو اب شہد سے شیریں، ہمالہ سے بلند اور سمندر سے گہری قرار دی جاتی ہے اور اس کا منہ بولتا ثبوت پاک چین اقتصادی راہداری ہے جوچین اور پاکستان کے دشمنوںکی آنکھ کا کانٹا بنی ہوئی ہے۔ چین اور پاکستان کی دوستی کی تاریخ طویل ہے محض اتنا کہنا کافی ہے کہ دونوںملکوں کی دوستی ہرمشکل وقت میں کھری ثابت ہوئی ۔ سعودی عرب کے دورے کے بعد وزیراعظم نے جس خوشخبری سنانے کااعلان کیا تھا وہ شاید یہی تھی جو جمعرات کے روز انہوںنے سنائی کہ چین سے سرمایہ کاری بھی لائیں گے اور ٹیکنالوجی بھی۔ زیادہ خوش آئند امر ٹیکنالوجی لانے کا ہے کہ قبل ازیں ہمیشہ امداد ہی آتی اور اڑائی جاتی رہی اگرکہیںخرچ بھی ہوئی تو قرضوں کا سود ادا کرنے یا پھر حکومتی امور چلانے میں، عوام پر یہ امداد یا قرضے استعمال نہ ہوئے۔اس کی گواہی عوام کی حالت زار سے ملتی ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے شروع قرضوں اور امداد کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور پاکستان اب بھی قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہاہے۔ دوسری جانب بھارت نے ایک انوکھی راہ اپنائی۔ اس نےغیرملکی مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائد کردی تاکہ تجارتی خسارے سے محفوظ رہے اور بین الاقوامی کمپنیوں کو اپنے ہاں یونٹ لگانے پرمائل کیا لیکن اس شرط پر کہ وہ ایک معینہ مدت تک جو 20سے 25سال تھی، کاروبار کریں اور پھرٹیکنالوجی سمیت یہ یونٹ بھارت کے حوالے کرکے وہاں سے چلی جائیں۔ کروڑوں کی آبادی والے اس ملک کی طرف ان کمپنیوںکا راغب ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی البتہ بھارت کو نہ صرف لگے لگائے صنعتی یونٹ مل گئے بلکہ ٹیکنالوجی بھی۔ اور تو اور بھارت نے کم و بیش چالیس برس قبل بنگلور کو آئی ٹی سٹی بنا دیا اور اب دنیا بھر میں آئی ٹی انجینئرز بھارت کے ہیں یا چین کے۔ یوں بھارت نہ صرف ٹیکنالوجی میں ہم سے آگے بلکہ آئی ٹی سے اربوں ڈالر سالانہ کازرمبادلہ گھر بیٹھے کمارہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی طرف سے سرمایہ کاری اور کاروبار کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی لانے کا عزم انتہائی خوش آئند ہے کہ اسی طرح ہم ایک صارف معاشرے کی بجائے پیداواری معاشرے میں ڈھل سکتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا دائرہ کار جتنا وسیع ہوگا ہماری ترقی کی راہیں بھی اسی قدر زیادہ اور کشادہ ہوں گی۔ اس کی وہی راہ ہے جس کا عزم وزیراعظم نے کیا ہے یعنی سرمایہ کاری اورٹیکنالوجی لانے کا،یہی دو عوامل ہمارے اقتصادی استحکام کی خشت ِ اول ثابت ہوں گے اورسردست دنیا میں وہی ملک کوئی مقام حاصل کرسکتا ہے جو اقتصادی و معاشی طور پر مضبوط ہے۔ وزیراعظم کا عزم لائق ستائش ہے۔ یہ جس قدر جلد روبہ عمل ہوگا ہماری معیشت بھی اسی رفتار سے استحکام کی منازل طے کرتی چلی جائے گی۔

تازہ ترین