• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ پاکستان کی حکومتوں کے بنانے اور ختم کرنے کا ٹیک ریکارڈ رکھتا ہے۔1969ء میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو امریکی سزا کے عمل سے گزارا جارہا تھا کیونکہ انہوں نے ”آقا نہیں دوست“ کا تصور دیا تھا تو امریکی سفیر عازم امریکہ ہوئے، قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں لکھا ہے کہ ایک تقریب میں چند غیرملکی صحافی ایک طرف کھڑے محو گفتگو تھے تو انہوں نے اِن صحافیوں سے پوچھا کہ اِس وقت پاکستان میں بحران ہے اور حکومت کی تبدیلی کا مرحلہ درپیش ہے تو یہ امریکی سفیر، امریکہ کیوں چلے گئے، اُن میں سے کسی نے کہا کیوں نہیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان میں کون حکمران بنے گا۔ امریکہ نے یہ طاقت اس طرح حاصل کی، پاکستان میں امریکی اثرورسوخ اتنا بڑھا ہوا ہے کہ جب بھی کسی نے امریکہ کی مخالفت کی اُسے امریکہ نے عبرت ناک سزا دی۔ جنرل مرزا اسلم بیگ اِس بات کے راوی ہیں کہ ایئرمارشل اصغر خان کو فضائیہ سے دشمن ملک سے مل جانے پر نکال دیا گیا تھا۔ پہلے امریکہ فوج کے کسی جنرل کے ذریعے سزا دلاتا تھا، اس دفعہ اس نے چند حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک ادارے سے سزا دلوائی۔ پاکستان کی تاریخ میں بھٹو خاندان امریکہ کی حمایت سے حکمرانی حاصل کرتا رہاہے اور بعد میں ملک کے مفاد میں کام کرتا ہے۔ پہلے امریکیوں کو خوش کرتا ہے اور اُن کے کہنے پر پاکستان کے مفاد کے خلاف بھی کام کرجاتا ہے۔ آصف علی زرداری بھی اس روش پر چل کر روس سے تعلقات بڑھا رہے تھے کہ امریکی دباؤ پر واپسی شروع کردی۔ روسی صدر نے دورہ پاکستان ملتوی کیا تو انسداد منشیات کے سربراہ نے بھی۔ سارے معاملات طے ہوجانے کے بعد اب امریکہ کے سفیر رچرڈ رولسن جو پیشے کے اعتبار سے سفارت کار نہیں ہیں بلکہ کسی فوجی پالیسی یا اسپیشل فورسز سے تعلق نظر آتا ہے اور وہ اطلاعات کے بموجب روانی سے اُردو، دری اور پشتو بول سکتے ہیں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات معمول پر آئے ہیں اور سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹھیک ہوگیا۔ شنید ہے کہ فیصلہ ہوا کہ پاکستان مخالف امریکی لابی کو اہم عہدوں سے ہٹا دیا جائے گا۔ جنرل پیٹریاس گئے، جنرل لیون پنیٹا کو جانا ہے، ہلیری آئندہ کے ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ہیں اس لئے اب وہ وزیر خارجہ نہیں ہوں گی اور پاک امریکی تعلقات میں رکاوٹ بہت کم رہ جائے گی۔ دوسری طرف پاکستان کا کون حکمران بنے گا، کا فیصلہ بھی ہوگیا ہے۔
آصف علی زرداری، رحمن ملک ستمبر میں امریکہ گئے تھے، شنید ہے کہ وہاں نواز شریف، اسحاق ڈار اور دیگر مسلم لیگی رہنما کے ساتھ الطاف حسین اور اسفندیار ولی سے مشورہ ہوگیا۔ کہا جارہا ہے کہ اس دورے کے دوران یہ فیصلہ ہوا کہ آصف زرداری نے اپنے دورانیہ مکمل کیا اور اب باری نواز شریف کی ہے۔ نواز شریف کو مرکزی حکومت دے دی جائے، پنجاب حکومت بھی نواز شریف حاصل کر سکتے ہیں اور اگر بلوچستان میں بھی نواز شریف کی حکومت بن جائے تو کوئی بات نہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اس پر سب کا اتفاق ہوگیا اور امریکہ اور فوج اس حکومت کی حمایت کرے گی۔ سندھ حکومت پی پی پی اور ایم کیو ایم کے پاس رہے گی تاکہ اس طرح نواز شریف کو دباؤ اور قابو میں رکھا جاسکے گا۔ اس کی تصدیق نواز شریف نے ایک اخبار کو انٹرویو میں جو 27نومبر کو شا ئع ہوا ، میں کہا کہ’ پیپلز پارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکان نہیں اور ان کو آصف علی زرداری سے حلف لینے میں اعتراض نہیں، تمام تفصیلات طے ہوجانے کے بعد عبوری وزیراعظم کے ناموں پر اتفاق ہوجائے گا یعنی وہ یا تو شاکر اللہ جان ہوں گے یا ناصر اسلم زاہد ہوں گے یا کوئی اور۔ کوئی اور اس لئے کہ کیونکہ شاید مسلم لیگ کے نامزد کردہ یہ دونوں امیدوار پی پی پی کو قبول نہیں ہوں گے۔
عبوری حکومت بن جانے کے بعد ممکن ہے کہ جنرل حضرات یہ فیصلہ کریں کہ عام انتخابات نہ کرائے جائیں اور اسی عبوری حکومت جو سب کی منشا سے بنے گی کو طول دے دیا جائے اور اس میں کچھ اچھے افراد ڈال دے اور اس عبوری حکومت کو تین سال تک چلایا جائے۔ جب امریکہ افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائے، حالات ایسے پیدا کردیئے جائیں کہ انتخابات ہوں ہی نہ سکیں۔ نئے حکمرانوں نے امریکہ کے تمام مطالبات مان لئے ہیں اور دور حکمرانی کے لئے وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ پاکستان کے اندر امریکی مداخلت اور اثرورسوخ اس طرح سے بڑھ رہا ہے جو منصوبہ کے عین مطابق ہے۔ امریکہ نے اس کے لئے1.4 بلین ڈالرز خرچ کئے جارہے ہیں۔1… اداروں کے ذریعے سے جس میں فوج، بیوروکریسی اور دیگر ادارے شامل ہیں۔2… این جی اوز کے ذریعے، تعلیمی اداروں، اسپتال، رفاعی کام اور دیگر طریقوں، تعلیمی اداروں میں اثر و رسوخ بڑھارہے ہیں۔ امریکی کورس نافذ کیا جارہا ہے اور پاکستان کا اسلامی نظریہ کو ختم کرکے غیراسلامی بنایا جارہا ہے۔ اسی طرح سے اسپتالوں اور پولیو مہم کے ذریعے وہ عوامی رابطے کی مہم چلاتے ہیں جبکہ روس میں یو ایس ایڈ پر جاسوسی کا الزام لگا اور اس ادارے کو وہاں کام کرنے سے روک دیا گیا۔3… تصوراتی بندوبست: پاکستان میں اسلامی تشخص اور پاکستان کا اپنا تشخص ختم کرنے اور امریکی تصور کو پاکستانی عوام پر لاگو کرنے کیلئے ایک باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہے جس میں شنید ہے پاکستان کے میڈیا پر بڑی رقم خرچ کردی گئی ہے، پاکستان کے کئی اداروں تک میں امریکیوں نے بلاواسطہ اثرورسوخ بڑھا لیا ہے یا قانون اندھا کے تصور کے تحت اُن سے فیصلے کرانے کا طریقہ استعمال کیا جارہا ہے۔ اس تصوراتی بندوبست میں فوج کو بھی لادین کردیا جائے گا اس کے موٹو، جہاد، تقویٰ اور ایمان کو ختم کرنے کا پروگرام شامل ہے۔
تازہ ترین