• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم ہائوس میں ’’سٹیزن پورٹل‘‘ (مرکز عوامی شکایت) کا افتتاح کردیا۔ جنوری سے بھاشا ڈیم پر کام شروع ہو جائے گا: چیف جسٹس ۔لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انوارالحق نے ملکی تاریخ میں پہلی بار شام کے اوقات میں عدالتیں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ 3نومبر کو بچوں کی عدالتوں کا باقاعدہ افتتاح کردیں گے۔ ابتدائی مرحلے میں شام کو صرف فیملی عدالتوں میں بچوں کی حوالگی سے متعلق کیسز کی سماعت ہوگی۔ چیف جسٹس کے مطابق بچوں کو بری صحبت سے بچانے کے لئے شام کی عدالتیں لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق شام ہی کی سول اور فوجداری عدالتوں کا اعلان جلد متوقع ہے۔ پنجاب بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ، 20ڈپٹی کمشنر، 5آر پی او، 19ڈی پی او تبدیل۔ نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے مطابق بدعنوانی کی شرح کے عالمی انڈکس میں پاکستان 175ویں سے 116ویں نمبر پر آگیا۔

یہ سب آج کی ہی تازہ خبریں ہیں۔ شکر الحمدللہ، خبروں کا سیلاب رواں تو رکنے کا نام ہی نہیں لیتا، لیکن یہ وہ خبریں ہیں جو عشروں سے پاکستان کے بدعنوان حکمرانوں اور بدعنوانیوں میں ان کی معاون افسر شاہی اور آئین و قانون سے متصادم ان کے گھڑے ’’تھانہ کچہری کلچر‘‘ کے حامل عوام، دشمن انتظامی ڈھانچے کی بیخ کنی اور عوام کی بے پناہ راحت کا ساماں ہوگا اور وہ آئین و قانون کی بالادستی کے بڑے بینی فشری ٹھہریں گے۔ اگر پی ٹی آئی نے پاناما کے بعد ٹاپ ٹو ڈائون احتساب کو ممکن بنانے کے لئے جو زبردست قانونی اور سیاسی جدوجہد کی اس کے ساتھ ساتھ (کم از کم) ن لیگی دور کے آخری ہی سال میں متذکرہ نوعیت کے عوامی مسائل حل کرنے کے لئے مختلف عملی اقدامات اور عملی تجاویز کا ہوم ورک، عملدرآمد کے روڈ میپ کے ساتھ تیار کیا ہوتا تو یہ کام جو اب شروع ہوئے ہیں، جناب عمران خان کے حکومت سنبھالتے ہی شروع ہو جاتے۔ تاہم، گھمبیر بحرانی صورتحال میں Focus Demands Sacrificeاپنی جگہ ایک بڑی ضرورت ہوتی ہیں، لیکن جدوجہد جب سیاسی ہو اور پاپولر سیاسی جماعت جیسے پلیٹ فارم سے ہورہی ہو تو مختلف بڑے بڑے اہداف کے حصول کے لئے کثیرالجہت توازن بھی لازم ہوتا ہے اور حکومت میں تو آکر یہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس عظیم قومی سیاسی ضرورت (جو پوری ہورہی ہے) کے تناظر میں دیکھا جائے توپارٹی کے قائد کے طور خان اعظم نے تو کڑے احتساب کا رواں دواں عمل شروع کرانے میں بالآخر کامیابی حاصل کر ہی لی۔ آج پوری دنیا میں پاکستانی احتسابی عمل کا ڈنکا بج رہا ہے جہاں تک عوام کو متذکرہ نوعیت کے فوری ریلیف دینے والے اور حصول حقوق کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کا تعلق ہے یہ کام پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو اور صوبائی پارٹی ڈھانچے کے کرنے کے تھے کہ وہ سینئر تجربے کار اور تعلیم یافتہ پارٹی کارکنوں سے روزمرہ مسائل کے حل پر مشتمل سفارشات، تجاویز اور طریق ہائے کار و دیگر تجویز اور ان پر عملدرآمد کی ڈاکیومینٹیشن تیار کر کے انتخابی مہم عوام کے سامنے پیش کرتے۔ تو یہ کام انتخابی نتائج کو بھی پی ٹی آئی کے لئے مزید مثبت نتائج دیتا اور یہ حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی ڈھیلے پن، کنفیوژ ہونے اور اناڑی پن کا تاثر تیزی سے سنبھالتے خارجہ امور کے متوازی پڑا، یہ نہ پڑتا، اور اصلاح احوال کا تیسرا نہیں تو دوسرا گیئر تو لگ چکتا۔

اسٹیٹس کو کے نظام کی ایک بڑی قباحت یہ رہی ہے کہ اس میں حرص و ہوس میں مبتلا خود غرض اور بدعنوان روایتی حکمران موجود وسائل سے ہی جلد سے جلد ترجیحاً اپنی اغراض پوری کرنے کی ’’حکمت عملی‘‘ اختیار کرتے ہیں، اور اس کے لئے انہیں عوام کی فلاح کے نام پر کوئی نہ کوئی فن کاری، اورنج ٹرین، سستی روٹی یا لوڈشیڈنگ کے جلد خاتمے جیسی دکھانا پڑتی ہے۔ (پیپلز پارٹی نے تو سندھ میں اس کا تکلف بھی نہ کیا) اور اس کے دور میں حج کے ساتھ ’’اسیکنڈل‘‘ کا لفظ جڑ گیا۔ بغیر عوامی مطالبے و ضروریات کے ایسے ’’ترقیاتی پروجیکٹس‘‘ مسلط کر کے حکمران تو امیر تر اور ان کے گٹھ جوڑ سے بدعنوان بیوروکریسی بھی مہینوں میں حیران کن حد تک امیر ہو جاتی ہے، عوام بھاری بھر کم سرمایے سے ایسے منصوبوں کے یا تو محدود سے بینی فشری بنتے ہیں جیسے لیپ ٹاپ کی بے تکی اور مشکوک تقسیم اور سستی روٹی، حتیٰ کے اورنج ٹرین یا پھر شروع ہو کر، بڑی تشہیر کے بعد بھی ٹھپ ہو جاتے ہیں اور پھر غیر ملکی قرضوں کی طرف رخ ہوجاتا ہے اور عوام کو ان کے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں ڈالا جاتا ہے کہ دانستہ پیدا کئے گئے کنفیوژن سے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا۔ حکومت تبدیل ہوتی ہے پتا چلتا ہے کہ پاناما کی کمپنیاں ہی نہیں ہیں ناصرف اقاموں کے پردے میں چھپی کمپنیاں بلکہ ہر محکمے کے متوازی کمپنی بنی ہوتی تھی جسے بابو اور فرنٹ مین ٹھیکے دار چلا رہے تھے۔ یوں موجود اور قرض لئے گئے سرمایہ سے لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔

دنیا کی غالب اقوام نے پوری دنیا کو ایک بڑا سبق دیا ہے، خصوصاً جاپانیوں نے، جہاں تیل کے ذخائر ہیں نہ قیمتی معدنیات کے مدفون خرانے، نہ قابل رشک زرعی خطے، لیکن انہوں نے دنیا کو بتایا، دکھایا اور دکھا کر دنیا کی معیشت پر غالب ہوگئے۔ سبق ان کا یہ ہے کہ دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے سب سے بڑا خود حضرت انسان اور اس کو اللہ کی دی گئی بیش بہا صلاحیتیں اور اس کے ایسے ایسے اشراف ہیں کہ وہ اللہ کا نائب کہلایا۔ زمانے نے مکمل ثابت کردیا ، جاپان کے علاوہ جرمنی اور ترقی پذیر دنیا میں بھی اسرائیل، سنگاپور کسی حد تک ملائیشیا اور ترکی نے ثابت کردیا کہ اگر کوئی قوم فقط اپنے انسانی وسیلے کو بہتر طور مینج کرلے اور اس کا ایک پوٹینشل سے بھرا قومی دھارا بنانے میں کامیاب ہو جائے تو سرمائے اور مخصوص قدرتی وسائل کے بغیر بھی عقل سلیم کی اجتماعی کاوشوں اور جسمانی صلاحیتوں کے بہترین استعمال، صحت مند قومی رویے، منظم قوم، وقت کے بہترین استعمال کے شعور سے ہی بڑے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک اپنا تیل، سونا اور لوہا نکالنے کے لئے روایتی ہی قدرتی وسیلوں سے محروم بہترین انسانی وسیلے (ہیومن ریسورس) سے قومی زندگی خوشحال، آسان اور باوقار ہوسکتی ہے۔ سو، سب عوامی مسائل کا تعلق وسائل (مالی اور روایتی قدرتی) سے نہیں، بلکہ سب سے بڑا قدرتی وسیلہ ہمارا دماغ اور جسمانی اعضا ہیں، ہمیں بحیثیت قوم ان کا استعمال کتنا اور کیسا آتا ہے؟ اس کے لئے ہمیں جاپان میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے ارتقا کا مطالعہ کرنا چاہئے خصوصاً حکمرانوں کو۔

یہ درست ہے کہ پاکستان گھمبیر اقتصادی بحران میں مبتلا ہے لیکن بے شمار پبلک ریلیف عقل کے بہتر استعمال، عوامی مسائل کی فہم، خلوص اور دیانت سے دستیاب پوٹینشل سے کتنے ہی عوامی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ انسداد رشوت اور عوامی ڈیلنگ کو بہتر کرنے کے لئے آئی ایم ایف یا سعودی عرب پر آس لگانے کی ضرورت نہیں۔ متذکرہ خبریں بتا رہی ہیں کہ کچھ بہتر ہوا تو ہے۔

تازہ ترین