• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو قومی نظریہ کی پاسبانی اور شاہ احمد رضاؒ کا کردار

پروفیسر ڈاکٹر محمد حسن امام

 یہ امراظہر من الشمس ہے کہ مسلمان اور غیرمسلم دو الگ الگ قومیں ہیں۔ دونوں كکے راستے جُدا جُدا ہیں۔ دونوں کی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔مسلمان سب سے پہلے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰﷺ كکا سچا پیروکار ہے جو اسلام کا سرچشمہ ہیں، یہ دوقومی نظریہ کا بنیادی اصول ہے۔ دوقومی نظریہ ’’ملّت اسلامیہ‘‘ کا نظریہ ہے۔ یہی نظریہ تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔

برطانوی سامراج طویل غاصبانہ قبضے كکے بعد جب بر صغیر سے جانے لگا تو ہندو عیار پورے ہندوستان پر اکیلے حکومت کرنے کا خواب دیکھنے لگا،چناںچہ اس نے اپنی حکمرانی کا راستہ ہموار کرنےکے لیے مسلمانوں کاعلیحدہ قومی تشخص ختم کرنے کی ٹھان لی۔ بس پھر کیا تھا ایک قومی نظریہ کا نعرہ بلند ہوا اور پھر گاندھی نے نہایت ہی منّظم طریقے سے بر صغیر کے بسنے والوں کے لیے صرف ایک ’’ہندوستانی قوم‘‘بن جانے کی تحریک چلادی۔

’’ہندومسلم اتحاد‘‘کے مظاہرے ہونے لگے۔ مسلمان اپنا قومی تشخص اپنے ہاتھوں سے مٹانےلگے۔ اب تصویر كکا دوسرا رخ دیکھئے:

علاقے بہار میں ہندوؤں نے محض گائے کی قربانی روکنے کے لیے ہزار ہا مسلمانوں کو زخمی اور قتل کردیا۔ مسلمانوں کے متعدد گاؤں اور دو ہزار سات سو مکانات اس بے دردی کے ساتھ لوٹے گئے کہ جن کی تفصیل سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ لاتعداد مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی۔ پانچ عالی شان مسجدیں شہید کردی گئیں۔ قرآن مجید کی بے حرمتی کی گئی۔ بقر عیدکے موقع پر کٹا رپور میں ایک دو نہیں تقریباً تیس مسلمانوں کو زندہ آگ میں جلادیا گیا۔

ان نازک ترین حالات میں بریلی شریف کے مردِ حق آگاہ مجدّد مائتہ حاضرہ امام احمدرضا محدّث بریلویؒ خاموش نہ رہ سکے۔ آپ مجدّدانہ انداز میں آگے بڑھے اور دوقومی نظریہ کی علم برداری کا فریضہ ادا کرنے کی ذمہ داری سنبھالی۔ آپ نے متحدہ قومیّت کا پرچار کرنے والے گاندھی نواز افراد کا ایسا تعاقب فرمایا کہ ان کے جملہ دلائل کے سارے تاروپود بکھیر کر رکھ دیئے۔

آپ نے’’انفس الفکر فی قربان البقر‘‘(۱۲۹۸ھ/ ۱۸۸۰ء) کتاب تصنیف فرمائی جس میں قرآن وحدیث سے نفس قربانی اور گائے کی قربانی پر تفصیلی بحث کے بعد تمام شبہات و اعتراضات کا نہایت ہی شافی جواب دیا، جو دیدنی ہے، مسلم لیگ ضلع بریلی کے جوائنٹ سیکریٹری سیّد عبدالودود كکے ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں:

’’فی الواقع گاؤ کشی ہم مسلمانوں کا مذہبی شعار ہے، جس کا حکم ہماری پاک مبارک کتاب کلام مجید رب الارباب میں متعدد جگہ موجود ہے۔ اس میں ہندوؤں کی امداد اور اپنے مذہبی معاملات میں کوشش اور قانونی آزادی کی بندش نہ کرے گا، مگر وہ جو مسلمانوں کا بد خواہ ہے۔‘‘

’’اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام‘‘ (۱۳۰۶ھ/۱۸۸۸ء)میں ہندوستان کو دارالسّلام قرار دیتے ہوئے آپ نےسود کو حرام اور ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ غاصبانہ قرار دیا۔ لطف تو یہ ہےکہ دارالحرب قرار دینے والوں نے خود تو ہجرت کا نام تک نہ لیا ،مگر سادہ لوح مسلمانوں كکو یہاں سے ہجرت کرجانے کی تلقین کی، چنانچہ امام احمدرضا محدّث بریلوی ؒ لکھتے ہیں:

’’الحاصل ہندوستان كکے دارالاسلام ہونے میں شک نہیں، عجب ان سے جو تحلیل ربوٰ کے لیے جس کی حرمت نصوص قرآنیہ سے ثابت اور کیسی کیسی سخت وعیدیں اس پروارد،اس ملک کو دارالحرب ٹھہرائیں اور باوجود قدرت و استطاعت ہجرت کا خیال بھی دل میں نہ لائیں، گویا یہ بلاد اسی دن کے لیے دارالحرب ہوئے تھے کہ مزے سے سود کے لطف اڑائیے اور بآرام تمام وطن مولوف میں بسر فرمائیے۔‘‘ یہ ہیں اعلیٰ حضرت کے دوقومی نظریے کے حوالے سے وہ افکار ونظریات جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی دینی ،مذہبی و سیاسی رہنمائی کافریضہ انجام دیا ۔آپ نے برصغیر کے مسلمانوں میں یہ روح پھونکی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔

مولانا احمد رضا خان کی شخصیت سے شاید ہی برصغیر پاک و ہند اور دنیائے عرب کا کوئی مذہبی شخص ناواقف ہو گا۔ فقہی،علمی اور مذہبی اعتبار سے آپ جن عبقری صفات کے حامل تھے،مسلکی اختلافات کے باوجود معاصرین سے لے کر دور حاضر کے لوگوں تک سب ہی نے علمی برتری اور شریعت فہمی میں آپ کی نگاہ ثروت کا لوہا مانا ہے۔ آپ ایک جید عالم عبقری فقیہ، صاحب نظر اور عظیم محدث ہیں۔ انفرادیت کا عالم یہ ہے کہ جب آپ کا قلم میدان تحقیق میں فن دکھاتا ہے تو عموماً آخری حدود کو چھو جاتا ہے اور مزید تحقیق کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ 

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہمہ جہت شخصیت

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ہمہ صفات تھی ،آپ نے جس میدان میں بھی قدم رکھا ،دنیا نے آپ کو اسی میدان کا شہسوار مانتے ہوئے سمجھا کہ شاید آپ نے اس فن کے حصول کے لیے تمام زندگی صرف کی ہے۔علم ہیئت ،توقیت ،جفر،فقہ، حدیث ،منطق ،فلسفہ ،سائنس وغیرہ کے نہ صرف ماہر تھے، بلکہ ہر فن میں خداداد علمی تحقیقی صلاحیتوں کے مالک تھے اور ہر فن میں ایک نئے انداز وفکر وبیان سے کتاب تحریر فرماکر دنیا سے اپنے قلم کا لوہا منوایا،اسی طرح نعت گوئی میں بھی آپ امتیازی شان کے مالک تھے، آپ عشق رسول ﷺمیں سرشارتھے ،آپ کی تصانیف میں بھی عشق رسول ومحبت رسول ﷺکے ایمان افروز جلوے نظر آتے ہیں۔اس عشق ومحبت کے جلوؤں کی جھلکیاں آپ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ مسمیٰ تاریخی ’’حدائق بخشش‘‘میں بدرجہ کمال پائی جاتی ہیں، آپ کا کلام فصاحت وبلاغت ،لطائف ونزاکت اورسلاست وروانی کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔

تازہ ترین