• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیکھنے کے کئی انداز ہوتے ہیں۔ کچھ بچے سُن کرسیکھتے ہیں، کچھ چھُو کر سیکھتے ہیں جبکہ کچھ بچے دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ ہر انداز سے سیکھنے والے بچے کی اپنی جداگانہ اور نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں۔ اگر دیکھ کر سیکھنے کی بات کریں، تو دورِ جدید میں بچوں کے لیے ’دیکھ کر سیکھنے‘ کے کئی ذرائع دستیاب ہیں، جن میں ایک ذریعہ انٹرنیٹ سے جڑا موبائل فون اور ڈرائنگ روم میں سجا ٹیلیویژن ہے، جہاں بچے گیمز اور پویمز کے علاوہ اپنے پسندیدہ کارٹون بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ یہاں ہم ایک بات ابتدا میں ہی بتاتے چلیں کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے پانچ سال تک کے بچوں کو محدود وقت کے لیے اسکرین کے سامنے کم رکھیں، مثلاً ان کا اسکرین ٹائم بشمول موبائل فون، کمپیوٹر اور ٹیلیویژن ایک گھنٹے یا پھر دو گھنٹے سے کسی صورت زیادہ نہ ہو۔ ساتھ ہی والدین کو اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ آپ کے بچے اسکرین کے سامنے گزارا ہوا وہ محدود وقت بھی مثبت اورتعلیمی تفریح میں گزاریں۔ بیشتر والدین کو یہ شکایت بھی رہتی ہے کہ آج کل کے کارٹونز ان کے بچوں کی اخلاقیات خراب کررہے ہیں، جوکہ بالکل دُرست شکایت ہے۔ تاہم کچھ کارٹون کردار بچوں کو بہت پسند ہوتے ہیں، جو بچوں کو تعلیمی تفریح فراہم کرتے ہیں، کیونکہ وہ سبق آموز ہوتے ہیں اور بچوں پر مثبت نفسیاتی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ 

اس کی دوسری مثال فلم ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘ کے ذریعے اس طرح دی جاسکتی ہے کہ اس فلم میں سنجے دت کی ’جادو کی جپھی‘ بہت مشہور ہوئی تھی۔ فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ کس طرح منا بھائی کا کردار ادا کرنے والے سنجے دت مختلف لوگوں کو گلے لگا کر ان کو زندگی کی جدوجہد کا حوصلے سے سامنا کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق قریبی رشتوں، جیسے والدین، بہن بھائی، شریکِ حیات یا دوستوں سے گلے لگنا دماغی و جسمانی طور پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ طبی ماہرین نے باقاعدہ ریسرچ سے ثابت کیا ہے کہ پریشانی اور ڈپریشن میں کسی عزیز کے گلے لگنا دماغی تناؤ میں کمی کا باعث بنتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ عمل اعصاب کو پرسکون، جسمانی تکالیف میں کمی، امراض قلب میں شفاء اور قوتِ مدافعت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہی بات ہمیں ڈزنی موویز میں بھی نظر آتی ہے، جو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہیں۔ فلم کے آخر میں تمام مسئلے مسائل ختم ہونے کے بعد کردار آپس میں گلے ملتے ہیں، جس کے بعد ان کے رشتوں میں اور بھی مضبوطی پیدا ہوجاتی ہے۔

مختلف کارٹون کردار، اچھے کاموں کے ذریعے، بچوں اور بڑوں پر کس طرح یکساں مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں، آئیے جانتے ہیں۔

لائن کنگ

ہم میں سے ہر شخص نے اپنے بچپن میں مشہور فلم ’لائن کنگ‘ ضرور دیکھی ہوگی۔ عزم و ہمت اور سمبا کی جدوجہد پر مبنی کہانی میں مختلف کردار ایک دوسرے کو گلے لگاتے اور اپنے رشتے کو مضبوط بناتے دکھائی دیتے ہیں۔

فروزن

دو بہنوں کی محبت پر مشتمل ڈزنی مووی ’فروزن‘ میں بڑی بہن ایلسا جادوئی صلاحیت کی حامل ہوتی ہے اور جس چیز کو چھو لیتی ہے، اسے برف کا بنا دیتی ہے۔ فلم میں وہ اپنی محبت کرنے والی چھوٹی بہن انا کو بھی چھو لیتی ہے، جس کے بعد وہ آہستہ آہستہ برف میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔ دیگر کردار اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب تک انا کو کوئی محبت کرنے والا گلے نہیں لگائے گا، وہ اپنی اصل حالت میں واپس نہیں آئے گی اور مستقل برف کا بنے رہنے کے باعث بالآخر مر جائے گی۔ بالکل آخر وقت میں ایلسا وہاں پہنچ جاتی ہے اور روتے ہوئے بہن کو گلے لگالیتی ہے، جس کے بعد انا جاگ جاتی ہے اور اس پر سے برف کا اثر ختم ہوجاتا ہے۔ فلم میں بہنوں کی محبت کی معنویت اور گہرائی کو پیش کیا گیا ہے۔

فائنڈنگ نیمو

باپ اور بیٹے کی محبت کی کہانی پر مشتمل ’فائنڈنگ نیمو‘ میں نیمو نامی ایک مچھلی کو شکاری پکڑ لیتے ہیں، جس کے بعد اس کا باپ مارلن اسے ڈھونڈنے کے لیے پورے سمندر کی خاک چھانتا ہے۔ اَن تھک جدوجہد اور بے شمار خطرات کا سامنا کرنے کے بعد وہ بالآخر اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے اور اسے قید سے رہائی دِلانے میں کامیاب رہتا ہے۔ اس موقع پر دونوں باپ بیٹے کا جذباتی انداز میں گلے لگنا دیکھنے والوں کے دلوں کو موم کردیتا ہے۔

مانسٹر انک

فلم ’مانسٹر انک‘ خوفناک صورتوں والی عفریت کی کہانی ہے، جس میں ایک بچی ’بو‘ اپنے گھر سے بھاگ کر اتفاقاً ایک مانسٹر جیمز سلون سے جا ملتی ہے۔ دونوں کے درمیان گہری دوستی کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ آخر میں مانسٹر بحفاظت بو کو اس کے گھر پہنچا دیتا ہے۔

وِنی دا پوہ

فلم ’ونی دا پوہ‘ میں زرد بھالو اپنی سب سے پسندیدہ چیز شہد کو گلے لگاتا ہوا نظر آتا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف شہد کو کھانے کے چیز نہیں سمجھتا بلکہ اسے اپنی زندگی کا اہم حصہ خیال کرتا ہے۔

تازہ ترین