• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء (بمطابق 3 ذیقعدہ 1294ھ) کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ اقبال کے آباء و اجداد قبول اسلام کے بعد 18ویں صدی کے آخر یا 19ویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے۔

اقبال جب سنِ شعور کو پہنچے تو وہ انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے، جو محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔ یہاں سے اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حسبِ دستور قرآن شریف سے ابتدا ہوئی۔ تقریباً سال بھر یہ سلسلہ چلتا رہا کہ شہر کے ایک نامور عالم مولانا سید میر حسن ادھر آ نکلے۔ ایک بچّے کو بیٹھے دیکھا، صورت سے عظمت اور سعادت کی پہلی جوت چمکتی نظر آرہی تھی۔ پوچھا کہ کس کا بچّہ ہے؟ معلوم ہوا تو وہاں سے اْٹھ کر شیخ نور محمد کی طرف چل پڑے۔ دونوں آپس میں قریبی واقف تھے۔ مولانا نے زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ رکھو۔ اس کے لیے جدید تعلیم بھی ضروری ہے اور خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا جائے۔ ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں تھا۔ یہاں اقبال نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا، پھر تین سال کا عرصہ گزر گیا۔ اس دوران سید میر حسن نے اسکاچ مشن ہائی اسکول میں بھی پڑھانا شروع کردیا۔ اقبال بھی وہیں داخل ہوگئے اور وہاں سے میٹرک پاس کیا۔ آپ نے مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔

علامہ اقبال کو شعر و شاعری کا شوق بھی یہیں پیدا ہوا اور اس شوق کو فروغ دینے میں آپ کے استاد مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔ لاہور کے بازار حکیماں کے ایک مشاعرے میں انہی دنوں اقبال نے ایک غزل پڑھی، جس کا ایک شعر تھا۔

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے

قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

شعر کا سُننا تھا کہ محفل مشاعرہ میں موجود افراد پھڑک اٹھے اور مرزا ارشد گورگانی نے اسی وقت پیشگوئی کی کہ یہ نوجوان مستقبل کے عظیم شعراء میں سے ہوگا۔ انہی دنوں انہوں نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم پر بھی توجہ دی، ایک ادبی مجلس میں انہوں نے اپنی اوّلین نظم ”ہمالہ“ سنائی تو اسے بہت پسند کیا گیا اور ان کی شہرت عام ہونا شروع ہوگئی۔

اس زمانے میں انہوں نے بچوں کے لئے بھی بہت سی نظمیں لکھیں، اس کے ساتھ ساتھ مکالماتی بیان مثلاً مکڑا اور مکھی، پہاڑ اور گلہری، گائے اور بکری کو بھی نہایت خوبصورت پیرائے میں تخیل کا جزو بنا دیا۔ اس کے علاوہ بچے کی دعا کہہ گئے، جو اب ہر اسکول کے بچے کی زبان پر ہے۔

لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

لاہور اورینٹل کالج میں1893ء سے لے کر1897ء تک سرایڈون آرنلڈ کے زیرِسایہ تعلیم حاصل کرنے کے دوران اقبال نے پہلی مرتبہ جدید فکر کا مطالعہ کیا۔ 1899ء میں یہاں سے ایم اے فلسفہ کیا، ساتھ ہی عربی شاعری پڑھانا شروع کی اور معاشرتی و معاشی مسائل پر قلم اُٹھایا۔

یونیورسٹی آف کیمبرج سے لا کرنے کے لئے اقبال نے 1905ء میں ہندوستان چھوڑا، لیکن یہ فلسفہ ہی تھا جس نے ان کی سوچ پر غلبہ پالیا۔ ٹرینٹی کالج میں ہیگل اور کانٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ یورپی فلسفہ کے بنیادی رجحانات سے واقف ہوگئے۔ فلسفہ میں دلچسپی نے انہیں1907ء میں ہائیڈ لبرگ اور میونخ (جرمنی) پہنچادیا، جہاں نطشے نے ان پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ یہی وہ دورتھا جب ان کا زاویۂ نگاہ تبدیل ہوا اور ان کی شاعری میں پیغامیہ رنگ دیکھنے میں آیا اورانھوں نے مغربی تہذیب سے بیزاری کا اظہار واشگاف الفاظ میں کیا۔

اقبال نے ایران میں روحانی ترقی کے موضوع پر ایک مقالہ لکھ کر فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ایک برس بعد 1908ء میں انہیں انگلستان میں لنکن اِن کے مقام پر آنے کی دعوت دی گئی۔ اس برس وہ وکیل اور فلسفی بن کر ہندوستان واپس آئے، واپسی کے بعد جلد ہی وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھانے لگے تاہم انہیں ہندوستانیوں کی غلامی کا احساس بہت زیادہ تھا۔ انہوں نے برطانوی راج کے محکوم ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کو عیاں کرنے میں گہری دلچسپی لی، یورپ روانگی سے قبل اقبال ایک آزاد خیال قوم پرست اور انڈین نیشنل کانگریس کے ہمدرد تھے، تاہم 1911ء میں تنسیخ تقسیم بنگال ہوگئی۔ اس کے بعد ان کا رجحان شاعری میں ہندوستان کے ساتھ مسلمانوں کی طرف بہت نمایاں نظر آتا ہے۔

اب وہ اپنے نقطۂ نظر میں مسلمانوں اور آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کرنے والے بن گئے تھے، 1922 ء میں انہیں سر کے خطاب سے نوازا گیا۔ اسی دور میں علامہ اقبال کا شکوہ مسلمانوں کے دل کی پکار ثابت ہوا۔ شکوہ لکھنے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے جواب شکوہ لکھ کر تمام نقادوں، معترضین کو لاجواب کر دیا کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔

چار سال بعد، 1926ء میں اقبال پنجاب مجلس قانون ساز میں منتحب ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ سے نزدیک تر ہو گئے۔ انھوں نے کانگریس اور ہندوؤں کی متعصبانہ سیاست کے خلاف مسلمانوں کیلئے آزاد وطن کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔

دینیات، تصوّف، مشرقی و مغربی فلسفہ اور انسانیت کے مقدر کو سمجھنے اور اس کی وضاحت کے لئے فارسی، اردو شاعری کے رمزیہ اور نازک انداز کو استعمال کرنے میں اقبال کو اپنے ہم عصر فلسفیوں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ وسعت میں آر پار جانے میں یہ اقبال کی اہلیت ہے جو فلسفہ کو سماجی، ثقافتی مسائل سے جدا کرتی ہے اور جس نے انہیں ایک فلسفی اور ثقافتی ہیرو بنایا۔

پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21اپریل 1938ء کو علامہ اقبال لاہور میں انتقال کر گئے تھے، تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ انھیں یاد رکھے گی۔

تازہ ترین