• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر اسے شاعرانہ تعلی نہ سمجھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ حوا کی ایک کمزور بیٹی انیتا تراب نے عدالت عظمیٰ کے سامنے سرکاری افسران کی حالت زار اور بے توقیری کا مقدمہ پیش کیا۔ایسے سول افسران جو حکمرانوں کی ذاتی پسند ناپسند کا شکار ہوتے ہیں اوراپنے فرائض حقیقی طور پر سر انجام نہیں دے سکتے ۔ ان کے لئے افتخار سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انیتاتراب کیس میں یہ اصول واضح کردیا تھا کہ کسی بھی سرکاری افسر کو اس کی تعیناتی کی مقررہ مدت پوری کئے بغیر عہدے سے نہیں ہٹایا جائے گا۔

اگر ایسا کرنا ناگزیر ہوا تو تحریری وجوہات بیان کرنا ہونگی۔حالیہ نوزائیدہ حکومت کے کارناموں کی فہرست طویل نہ سہی مگر یہ بھی ماضی کی روش پر چل پڑی ہے اور مسلسل من پسند تعیناتیاں اور تبادلے کررہی ہے۔مجھے یاد ہے کہ جب 2013کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن ابھی حکومت میں نہیں آئی تھی اور نگران حکومت کا بول بالا تھاتب مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ آصف اس معاملے میں سپریم کورٹ میں حاضر ہوئے ۔مقدمے کی سماعت کے دوران معزز عدلیہ کے چیف جسٹس(ر) جناب افتخار محمد چوہدری نے خواجہ صاحب پر واضح کیا کہ کل اگر آپ حکومت میں آئے تو آپ بھی اس اصول پر کاربند ہونگے کہ ذاتی پسند پر سرکاری افسران کو تبدیل نہ کیا جائے۔مگر کیا کریں کہ یہی لوگ حکومت میں آکر اپنے وعدے بھول جاتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی سول افسران کو آئینی تحفظ دینے کے بڑے دعوے کیا کرتے تھےپولیس کو غیر سیاسی بنانے کے حوالے سے ریفارمز کا نعرہ لگایا کرتے تھےمگر اقتدار ملتے ہی سب وعدے ہوا ہوگئے۔

اے وعدہ فراموش تیری خیر ہو لیکن

اک بات میری مان تو وعدہ نہ کیا کر

سول افسران کو آئینی تحفظ دینا تو دور کی بات بلکہ عدلیہ نے سول افسران کو جو عدالتی تحفظ دیا ہوا تھا،اس کی بھی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔موجودہ حکومت کے بارے میں یہ تاثر شدید ہوتا جارہا ہے کہ سیاسی بنیاد پر تقرر و تبادلے کئے جارہے ہیں۔ڈی پی او پاکپتن کے معاملے کو پہلی غلطی سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔مگر پھر اپنے من پسند آئی جی طاہر خان کو 28دن بعد صرف اس لئے ہٹا دیا گیا کہ انہوں نے مبینہ طور پر غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کیا تھا۔اسی طرح ناصر درانی نے بھی مستعفی ہوکر اپنی عزت کا تحفظ کیا۔ابھی یہ گرد بیٹھی نہیں تھی کہ آئی جی اسلام آباد کو بھی زبانی شاہی حکم نامے کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا۔مگر سپریم کورٹ آف پاکستان اس مرتبہ بھی غیر قانونی احکامات کے سامنے رکاوٹ بن گئی۔یہ وہ پاکستان نہیں ہے ،جس کا خواب قائد نے دیکھا تھا۔ابھی تک محسوس ہوتا ہے کہ معاملہ چہروں کی تبدیلی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

صحافی عمر چیمہ کی بدھ کے روز شائع ہونے والی تفصیلی اسٹوری بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تو قانون کی بات کرتے ہیں۔ میرٹ پر تعیناتیوں پر زور دیتے ہیں۔پھر کیسے زبانی احکامات پر ایک سینئر ترین پولیس افسر کو ہٹا دیا گیا۔ افسوس ہورہا ہے کہ سیکرٹری داخلہ ایک شریف اور ایماندار آدمی ہیں۔سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ان کی بھی دیانتدار ی اور قابلیت پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ۔مگر اس معاملے میں یہ دو افسران خاموش کیوں رہے؟ حالانکہ زبانی احکامات پر کسی افسر کو ہٹانے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ موجود ہے۔جب اسلام آباد ائیرپورٹ کا مقدمہ زیر سماعت تھا کہ ایک فرض شناس افسر محمد علی گردیزی کو ان کے عہدے سے بغیر کوئی سمری بھیجے ہٹا دیا گیا۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ازخود نوٹس لیا۔یہ خاکسار سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہی موجود تھا۔اس وقت کی حکومت کے پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعظم ناصر کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے اور نہ صرف اس ایکشن پر معافی مانگی بلکہ گردیزی صاحب کو ہٹانے کا نوٹیفیکیشن واپس لیا گیا۔سمجھ نہیں آتی کہ ایسی کونسی مجبوری تھی کہ کسی افسر نے بھی عمران خان کو یہ نہیں بتایا کہ آئی جی اسلام آبادکو زبانی حکم سے ہٹانے کا فیصلہ غیر قانونی ہے۔

حالانکہ سول سرونٹس کے لئے قائداعظم محمد علی جناح کا واضح پیغام موجو د ہے جو سول اکیڈمی میں پڑھائے جانے کے ساتھ ساتھ دفاتر کی دیواروں پر بھی چسپاں ہوتا ہے کہ ’ آپ ریاست کے ملازم ہیںاور عوام کے خادم ہیں۔آپ نے پولیٹیکل ماسٹرز نہیں بننا ۔ایسی صورتحال میں اے ۔کے لودھی جیسے بیوروکریٹس کا خیال آتا ہے ،جب اے کے لودھی چیف سیکرٹری سندھ تھے تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام صادق نے سکھر کے انتخابات میں حمایت نہ کرنے پر چیف سیکرٹری کو کہا کہ آپ ڈپٹی کمشنر سکھر کامران لاشاری کا ٹرانسفر کردیں۔ تو اے کے لودھی نے جام صادق پر واضح کیا کہ وہ ڈی سی کا ٹرانسفر نہیں کریں گے،بلکہ اگر حکومت کو ٹرانسفر مقصود ہے تو ان کا ٹرانسفر کردیا جائے۔اسی طرح جب اے کے لودھی چیف سیکرٹری پنجاب بنے تو انہوں نے ایک میٹنگ میں منظور وٹو کو برملا کہہ دیا کہ اگر بطور صوبے کے چیف ایگزیکٹیو وزیراعلیٰ بھی مجھے کوئی غیر قانونی کا م کا کہیں گے تو میں ہر گز نہیں کروں گا۔اسی طرح سابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن شاہد رشید کوہلو میں ڈپٹی پولیٹیکل ایجنٹ تھے کہ چیف سیکرٹری شیخ جمیل سے ان کے ٹرانسفر کا کہا گیا تو انہوں نے واضح کردیا کہ وہ کسی طور پر بھی ایماندار افسر کا تبادلہ نہیں کریں گے۔

ایک مرتبہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے ایک دوست نے ڈپٹی کمشنر کراچی ہاشم رضا کو سفارش کرنے کی درخواست کی تو قائد اعظم نے سخت الفاظ میں جواب دیا

I have no jurisdiction to interfare in the working of DC if you feel aggrieved against any of his decision please go to the High Court.

جو کچھ آج کیا جارہا ہے یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے۔ماضی کی حکومتیں بھی اس قسم کے کارنامے سرانجام دیتی آئی ہیں۔مگر عمران خان نے تو تبدیلی کی بات کی تھی،میں تو بس اس تبدیلی کو تلاش کررہا ہوں مگر وہ تبدیلی مجھے امرو ز کابینہ ڈویژن اور پاک سیکرٹریٹ کی راہداریوں میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔پس ثابت ہورہا ہے کہ ’نازک مزاج شاہاں تاب سخن نہ دارد‘۔۔۔۔ابھی سول افسران کی پروموشن کا معاملہ بھی آرہا ہے۔اس میں بھی کچھ اچھی اطلاعات نہیں آرہیں۔مگر گریڈ 22اور گریڈ 21میں ترقیوں کے حوالے سے سپریم کور ٹ آف پاکستان کی واضح ہدایات موجود ہیں۔جو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دو مختلف کیسز میں دی تھیں۔خدارا ان کی خلاف ورزی سے اجتناب کریں۔ خدارا سرکاری ملازموں کو میرٹ ،اہلیت پر فرائض تفویض کریں اور ان کے روزمرہ معمولات انہی پر چھوڑ دیں۔حکومت اپنے اہداف کا تعین کرے اور پالیسیوں پر عملدرآمد سرکاری افسروں پر چھوڑ دیں،آپ نتائج پر توجہ مرکوز کردیں،یہی افسر بہترین نتائج دیں گے۔عدالتی فیصلے سے دیانتدار اور فرض شناسی سے کام کرنے والے افسر خوش ہونگےکہ اب ان کی حق تلفی نہیں ہوگی۔حق بحق دار رسید والی صورتحال ہے ۔ایسے ہی حالات پر غالب اکثر کہا کرتے تھے

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین