• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: مطلوب حسین

کومل رضوی کا شمار شوبز انڈسٹری کے اُن درخشاں ستاروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے صرف اداکاری ہی نہیں، گلوکاری اور میزبانی کے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ گانا گایا تو میٹھی، مدھر آواز میں گائے گیتوں نے ہر طرف دھوم مچادی۔ اداکاری کی، تو اس قدر ڈوب کر کہ ہر کردار میں حقیقت کے رنگ بَھردئیے۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ہوائیں، سمندر ہے درمیان، تیسرا پہر، کبھی کبھی، لہریں اور مجھے روٹھنے نہ دینا، جب کہ گانوں میں بائوجی، لمبی جدائی، دیساں دا راجا وغیرہ شامل ہیں۔ وہ پہلی پاکستانی فن کارہ ہیں، جنہوں نے ایک بھارتی چینل کے لیے بھارتی اسٹارز کے دِل چسپ انٹرویوز بھی کیے، جو بے حد پسند کیے گئے۔خود کو صوفی راک گلوکارہ کہلوانا پسند کرتی ہیں اور بہترین گلوکارہ کا ایوارڈ بھی حاصل کرچُکی ہیں۔

گزشتہ دِنوں ہم نے جنگ، سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے کومل رضوی سے خصوصی بات چیت کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

س : خاندان اور جائے پیدایش کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج : مَیں 3اگست کو دبئی میں پیدا ہوئی۔ برطانیہ اور نائیجیریا میں پلی بڑھی اور پھر کم عُمری ہی میں پاکستان منتقل ہوگئی۔ میرے دو بھائی ہیں، ایک بھائی حسن رضوی شوبز سے وابستہ ہے۔ چوں کہ ہمارے خاندان میں ڈاکٹرز اور بینکرز زیادہ ہیں، تو اس لیے والدین نے تعلیم و تربیت کے معاملے میں کسی قسم کی رعایت نہیں دی۔

س : بچپن میں شرارتی تھیں یا مزاج میں سنجیدگی کا عنصر غالب تھا؟

ج : بے حد شرارتی تھی۔ امّی مجھے کبھی اکیلے گھر چھوڑ کے جانے کا رسک نہیں لیتی تھیں۔ یوں سمجھیں، پورا بچپن ’’ٹام بوائے‘‘ کی طرح گزرا ہے۔

س : والدین میں سے کس کی زیادہ لاڈلی ہیں؟

ج : ابّو کی لاڈلی ہوں۔ وہ میری کسی بات سے انکار نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ اگر مَیں یہ کہوں کہ ’’ابّو! آسمان پیلا ہورہا ہے۔‘‘ تو فوراً کہیں گے، ’’ہاں بھئی، تھوڑا پیلا ہو تو رہا ہے۔‘‘

س : آپ کو گانے کا شوق تھا، مگر کیریئر کی ابتدا اداکاری سے کی، تو ایسا کیوں…؟؟

ج : اصل میں امّی کو گانے کا بہت شوق تھا۔ وہ گھر ہی میں شوقیہ گلوکاری کرتیں، تو بس انہیں دیکھ کر مجھے بھی شوق ہوگیا۔ پھر مَیں اکثر گھریلو تقریبات میں تو گا لیتی تھی، لیکن باقاعدہ گانے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمارے گھر حیدر امام رضوی اور غضنفر احمد کا آنا جانا تھا، تو مَیں نے موقع پاکر حیدر انکل سے بات کی اور پھر انہوں نے گلوکاری تو نہیں، اداکاری کے لیے گھر والوں کو قائل کرلیا۔ اور یوں1997ء میں حیدر انکل نے مجھے ’’ہوائیں‘‘ ڈرامے کے ذریعے متعارف کروایا۔ اور بس وہی ڈراما میرے کیریئر کے لیے سنگِ میل ثابت ہوا۔ ابتدا میں اس ڈرامے میں میرا کردار مختصر تھا، لیکن جب ڈراما سُپرہٹ ہونے لگا، تو اصغر ندیم سیّد نے میرا کردار بھی بڑھا دیا۔ پھر 1999ء میں میرا پہلا گانا ’’بائوجی‘‘ ریلیز ہوا، تو وہ بھی سُپرہٹ رہا۔ یوں گلوکاری اور اداکاری ساتھ ساتھ چلتی رہی۔

س : پہلے ڈرامے کے بعد تو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟

ج : امّی کو میرا بطور اداکارہ کام کرنا پسند نہیں تھا، مگر ابّو کی مجھے فُل سپورٹ حاصل تھی۔ وہ مجھے خود اسٹوڈیو لاتے اور لے جاتے تھے۔ مگر پھر وقت کے ساتھ امّی نے بھی حقیقت تسلیم کرلی۔ رہی بات مشکلات کی، تو مجھے اُردو بالکل نہیں آتی تھی۔ میرا اسکرپٹ رومن میں لکھا جاتا۔ پھر حیدر انکل اور اقبال انصاری میرا تلفّظ درست کرواتے۔ سچّی بات تو یہ ہے کہ مجھ جیسی خام کو تراشنے میں ان ہی قابل شخصیات کا ہاتھ ہے۔

س : پہلی بار کیمرے کا سامنا کیا، تو دِل کی حالت کیا تھی؟

ج : تھوڑی بہت نروس تھی، لیکن جب آہستہ آہستہ اعتماد بحال ہوگیا، تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنا کرنے لگی۔

س : شوبز انڈسٹری کے بارے میں کیا کہیں گی؟

ج : یہ ایک ایسی دلدل ہے کہ اگر آپ اس میں ایک بار پھنس گئے، تو پھر اندر ہی اندر دھنستے چلے جاتے ہیں۔

س : والدین تو شاید آپ کو ڈاکٹر کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے؟

ج : جی بالکل، ایسا ہی تھا۔ امّی چاہتی تھیں کہ مَیں ڈاکٹر بنوں، مگر مجھے تو بچپن ہی سے میڈونا بننے کا شوق تھا۔

س : کچھ عرصہ پردۂ اسکرین سے غائب بھی رہیں، تو کہیں اداکاری اور گلوکاری سے دِل تو نہیں بَھر گیا تھا؟

ج : نہیں، نہیں۔ مَیں شوبز انڈسٹری چھوڑنے کا تو تصوّر بھی نہیں کرسکتی۔ بس، ایسے ہی کبھی کبھی تھوڑا بریک آجاتا ہے اور پھر جب مَیں اسکرین پر آتی ہوں، تو ہر طرف سے یہی سُننے کو ملتا ہے کہ ’’کومل نے کم بیک کیا ہے۔‘‘ اگر مَیں تھوڑے وقفے کے بعد نظر آتی ہوں، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مَیں نے شوبز انڈسٹری چھوڑ دی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اب اداکاری نہیں کررہی۔ اب میری پہچان صرف گلوکارہ کی حیثیت سے ہے۔

س : آج کے دَور کا، ماضی کے شوبز دَور سے کیسے موازنہ کریں گی؟

ج : ماضی کی نسبت اب مقابلے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک طرح سے یہ خوش آئند بھی ہے، کیوں کہ جب تک مقابلہ نہیں ہوتا، تبدیلی، بہتری بھی نہیں آتی۔ لیکن اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ آج ہماری شوبز انڈسٹری میں ایک طرح سے لاقانونیت کا راج ہے۔ کوئی اسٹریم لائن نہیں رہی، کوئی پروٹوکول نہیں ہے۔ کاپی رائٹ کا تصوّر ختم ہوگیا۔ اگر گانا ریلیز کرنا ہے، تو بس یوٹیوب پر اَپ لوڈ کردو، ہٹ ہوگیا، تو بس پھر وارے نیارے، ہر طرف سے آفرز شروع ہوجائیں گی۔ یہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہورہا۔

س : آپ سنئیرفن کارہ ہیں، تو ان مسائل کے حل کے لیے کیا کررہی ہیں؟

ج : گلوکاری کے ساتھ میرا تو اب بہت حد تک فوکس فلاحی کاموں پر ہے۔مَیں نادار بچّوں کی تعلیم کے لیے کچھ کوشش کررہی ہوں اور دوسرا رمضان میں غریبوں کے لیے دسترخوان کا اہتمام بہت جوش و خروش سے کرتی ہوں۔ فن کاروں کی بہتری، فلاح و بہبود اور انڈسٹری کے مسائل کے حل کے لیے بھی کوشش کرنا چاہوں گی۔ بہ شرط یہ کہ کوئی مناسب پلیٹ فارم موجود ہو۔ یوں ہی ہوا میں تیر چلانے کا کیا فائدہ۔

س : آپ نے فنِ موسیقی میں ’’صوفی راک‘‘ کا ٹرینڈ متعارف کروایا، تو یہ خیال کیسے آیا؟

ج : مَیں نے اپنی نجی زندگی میں کئی مشکلات برداشت کیں۔ کئی نامساعد حالات کا سامنا کیا اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچی کہ زندگی کے کسی بھی معاملے میں آپ کے ظاہر اور باطن میں تضاد نہیں ہونا چاہیے اور فنِ موسیقی میں بھی یہی اصول کارفرما ہے کہ جب تک آپ خلوص کے ساتھ جذبات کی عکّاسی نہیں کریں گے، پرستاروں سے پسندیدگی کی سند حاصل نہیں کرسکتے۔ تو بس یہی سوچ ’’صوفی راک‘‘ متعارف کروانے کا سبب بن گئی۔

س : کینڈین پروڈکشن ہائوس کے بینر تلے بننے والی ایک فلم ’’آفرین‘‘ میں آپ کو کاسٹ کیا گیا تھا، لیکن آپ فلم میں کام نہ کرسکیں، تو کیا وجہ ہوئی؟

ج : اصل میں وہ فلم آئی ایس آئی ایس کے خلاف بن رہی تھی اور اس میں میرا کردار ایک ایسی ایجنٹ کا تھا، جسے آئی ایس آئی ایس کے ایک گروہ کو ختم کرنا تھا۔ جب مَیں نے وہ فلم سائن کی، تو مجھے جان سے مارنے تک کی دھمکیاں دی گئیں۔ اس وجہ سے اہلِ خانہ بھی بے حد پریشان رہتے تھے۔ نیز، مجھے کینیڈا کا ویزا بھی نہیں مل سکا، تو یوں کئی وجوہ کی بنا پر مَیں خود ہی فلم سے پیچھے ہٹ گئی۔

س : آپ نے بالی ووڈ کے شو کی جو میزبانی کی، تو وہ تجربہ کیسا رہا؟

ج : وہ ایک خوش گوار اور منفرد تجربہ تھا۔ مَیں نے کئی نام وَر بھارتی اداکاروں کے انٹرویوز کیے۔ جیسے امیتابھ بچن، سلمان خان، شاہ رُخ خان، پریتی زنٹا، شلپا شیٹھی وغیرہ۔ تاہم، ان سب میں مجھے شاہ رُخ خان اور سلمان خان کا انٹرویو کرنا بہت اچھا لگا تھا۔

س : اگر دوبارہ کسی فلم میں کام کی آفر ہوئی، تو قبول کرلیں گی؟

ج : جی بخوشی کرلوں گی کہ اب بس یہی ایک خواہش باقی رہ گئی ہے۔

س : فرصت کے لمحات میسّر ہوں، تو کیا کرتی ہیں؟

ج : اہلِ خانہ کے ساتھ خُوب ڈھیر ساری باتیں کرتی ہوں۔

س : کس گلوکار/گلوکارہ کے ساتھ گانے کی خواہش ہے؟

ج : عابدہ پروین جی کے ساتھ گانے کی شدید خواہش ہے۔اگر میری یہ خواہش تکمیل پا جائے، تو میرے لیے اس سے زیادہ اعزاز کی بات کوئی نہیں ہوسکتی۔گرچہ مَیں اُن کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں، عابدہ جی تو لیجنڈ ہیں،مگر میری یہ دِلی آرزو ضرور ہے۔

س : رنگ اور موسم کون سا بھاتا ہے؟

ج : رنگوں میں سیاہ رنگ اور موسموں میں سرما۔

س: کھانا پکانے کا شوق ہے،کون سی ڈشز پسند ہیں؟

ج: جی بالکل، مجھے کھانا پکانے کا بےحد شوق ہے اور خاص طور پر تھائی، امریکن، چائنیز وغیرہ تو بہت اچھا بنالیتی ہوں۔رہی بات پسندیدہ ڈشز کی، تو جو مل جائے، کھالیتی ہوں کہ کبھی کھانے سے ہاتھ نہیں روکا۔میرا تو ماننا ہے کہ سِلم اسمارٹ نظر آنے سے کہیں زیادہ ضروری صحت مند ہونا ہے۔

س:کبھی کسی سے محبّت ہوئی؟

ج: اس سوال کا جواب مَیں نہیں دے سکتی۔

س: پہلی شادی ناکام ہوئی، تو دوبارہ گھر بسانے کا نہیں سوچا؟

ج: میری شادی گھر والوں کی مرضی سے بہت کم عُمری میں ہوئی تھی،لیکن ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب علیٰحدگی ہوگئی۔رشتے تو اب بھی بہت آتے ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ دوبارہ شادی کا فیصلہ میرے لیے بہت مشکل ہے۔

س : زندگی سے کیا سیکھا؟

ج : یہی کہ وقت بہترین استاد ہے، جو سب کچھ خود سکھا دیتا ہے۔

س : ابھی کس نئے پروجیکٹ پر کام کررہی ہیں؟

ج : عن قریب ہی مَیں ایک پروڈکٹ متعارف کروا رہی ہوں، جس کی تفصیلات بھی جلد ہی منظرِعام پر آجائیں گی۔

س : پرستاروں کے لیے کوئی پیغام؟

ج : اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کو کسی نہ کسی صلاحیت سے ضرور نوازا ہے، لہٰذا آپ میں جو بھی صلاحیت پوشیدہ ہے، اُسے استعمال کریں اور خود کو منوائیں۔

تازہ ترین