• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کے دورئہ چین کے اختتام پر چینی رہنمائوں سے ان کی بات چیت کے بارے میں جاری ہونے والا مشترکہ اعلامیہ دونوں ملکوں میں باہمی تعلقات کے نئے رخ کی علامت اور نصف صدی سے زائد عرصے سے فروغ پانے والی دوستی اور تعاون کو مزید آگے بڑھانے کے پختہ عزم کا اظہار ہے۔ یہ پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کے حل کے سلسلے میں چینی امداد و اعانت کا جامع پیکیج ہے جو آنے والے وقتوں میں پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کی ضمانت بھی بن سکتا ہے۔ دونوں ملکوں میں دفاع، تجارت، انسداد دہشت گردی، علاقائی سلامتی، صحت، زراعت، موسمیاتی تبدیلی، غربت کے خاتمے، سرمایہ کاری، ثقافت اور خلا کی تسخیر کے حوالے سے مفاہمت کی جن15 یادداشتوں پر دستخط کئے گئے ہیں، اعلامیہ میں انہیں مزید واضح کیا گیا ہے۔ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ چین پاکستان کو معاشی بحران سے نمٹنے اور کرپشن کےخاتمے کا فارمولا دے گا۔ اس سے کرپشن زدہ معیشت بحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے گی۔ دونوں ملک ڈالر کے بجائے اپنی کرنسیوں میں تجارت کریں گے۔ یہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کو کنٹرول میں لانے کے لیے ایک اہم فیصلہ ہے۔ اس وقت بین الاقوامی تجارت پر ڈالر کا راج ہے جو دنیا پر امریکہ کی گرفت مضبوط بناتا ہے۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک کی کرنسی ڈالر سے منسلک ہونے اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے یہ ملک اقتصادی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور چین نے اپنی کرنسیوں میں تجارت کرنے کا فیصلہ کرکے نہ صرف اپنی معیشت کو ڈالر کے منفی اثرات سے آزاد کیا ہے بلکہ دنیا کو بھی ایک نئی اور محفوظ راہ دکھائی ہے۔ دونوں ملکوں نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ درآمدات و برآمدات میں توازن کے معاہدے پر فوری عملدرآمد ہو گا۔ چین اپنی کرنسی میں پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم 10ارب سے بڑھا کر 20ارب یوان کرے گا جبکہ پاکستانی کرنسی میں تجارت کا حجم165ارب سے بڑھا کر 351ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دونوں ملکوں میں سیاسی تعلقات اور اسٹرٹیجک کمیونی کیشن کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔ عالمی، خطے اور مقامی حالات جیسے بھی ہوں مستقبل میں پاک چین کمیونٹی سطح پر تعلقات کو مستحکم کیا جائے گا۔ پاکستان میں معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے ورکنگ گروپ تشکیل دیئے جائیں گے۔ عالمی دہشت گردی سے متعلق جامع کنونشن کا اتفاق رائے سے مسودہ تیار کرنے کا مطالبہ کیا گیا، پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یو این او اور ایف ٹی ایف کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں پاکستان کی شمولیت کی حمایت کی گئی۔ سی پیک کی جلد تکمیل کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے بیجنگ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ پاکستان کے لئے مغرب کے برخلاف چین کا ماڈل بنیادی اہمیت کا حامل ہے، اس سے ادارے مضبوط اور بدعنوانی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ مشترکہ اعلامیہ میں کئی دوسرے شعبوں میں بھی تعاون کا اعلان کیا گیا ہے جس سے پاکستان میں فلاحی معاشرہ کی تشکیل ممکن ہوگی، تاہم سعودی عرب کی طرز پر جس فوری مالی امداد کی توقع ظاہر کی جا رہی تھی اس کا اعلامیہ میں کہیں ذکر نہیں۔ نومبر 2017سے سی پیک کے انفرا اسٹرکچر کے لئے جو فنڈنگ معطل کی گئی تھی اس کی بحالی بھی گائیڈ لائن کے تعین تک ممکن نہیں ہو گی۔ گویا سی پیک کے تحت تین اہم روڈ پروجیکٹس پر کام بند رہے گا، تاہم پاک چین وزرائے خارجہ کے اسٹرٹیجک مذاکرات کے میکانزم پر جو اتفاق کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں اس طرح کے مسائل جلد حل ہونے کی توقع ہے۔ مجموعی طور پر وزیراعظم کا دورئہ چین بہت کامیاب رہا ہے، مبصرین نے امید ظاہر کی ہے کہ اس سے پاک چین دوستی اور اسٹریٹجک شراکت مزید مضبوط ہو گی اور پاکستان کو تجارتی عدم توازن پر قابو پانے اور معاشی بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔

تازہ ترین