• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ملکی ایکسپورٹس بالخصوص ٹیکسٹائل سیکٹر کی ایکسپورٹس کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کا ذکر کیا تھا جس میں مجھ سمیت ملک کے ممتاز ایکسپورٹرز نے اسلام آباد میں پہلے دن وفاقی وزراء اور دوسرے دن وزیراعظم نواز شریف کو تفصیلی پریزنٹیشن دی تھیں۔ ہم نے وزیراعظم کو بتایا تھا کہ پاکستان خطے میں اپنے مقابلاتی حریفوں بھارت، بنگلہ دیش، چین اور دیگر ممالک کے مقابلے میں اپنی پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے تیزی سے مقابلاتی سکت کھورہا ہے جس کا اندازہ یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کے تحت ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی مراعات ملنے کے باوجود ہماری ایکسپورٹس میں مطلوبہ اضافہ نہ ہونے سے لگایا جاسکتا ہے جبکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران بنگلہ دیش نے اپنی ایکسپورٹس میں 160%، چین نے 97% اور بھارت نے 94% اضافہ کیا۔ اپٹما کے مطابق ملک کی متعدد ٹیکسٹائل ملز بند ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر کی تقریباً 30% پیداواری استطاعت سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا جس سے 3.5ارب ڈالر کی ایکسپورٹ حاصل کی جاسکتی تھی۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کے بحران پر گزشتہ دنوں کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل نے تفصیلی پینل ڈسکشن رکھی گئی جس میں میرے علاوہ ممتاز صنعتکار، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے سابق چیئرمین جبکہ اسلام آباد سے وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان بھی شریک تھے۔ دو گھنٹے جاری رہنے والے پینل ڈسکشن میں شرکاء نے پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کے بحران کی وجہ اور اس کے حل کیلئے اہم تجاویز دیں جنہیں آج میں اپنے پالیسی میکرز اور قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ پینل ڈسکشن میں،میں نے بتایا کہ ہماری ٹیکسٹائل صنعت ایک کامیاب اسٹوری ہے۔ قیام پاکستان کے بعد زیرو سے سفر کا آغاز کرنے والی ٹیکسٹائل صنعت کا آج ملکی ایکسپورٹس میں 55% حصہ ہے۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں یہ سیکٹر 40% سے زائد لوگوں کو روزگار فراہم کررہا ہے اور ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 8% سے 9% ہے۔ دنیا کے تمام بڑے ٹیکسٹائل برانڈز پاکستان میں تیار کئے جاتے ہیں لیکن گزشتہ کئی سالوں سے ہماری ٹیکسٹائل ایکسپورٹس 13 ارب ڈالر سے بڑھ نہیں پارہیں بلکہ رواں مالی سال کاٹن یارن کی ایکسپورٹ میں 32%، فیبرک میں 10% اور ہوزری میں 2.56% کمی جبکہ ریڈی میڈ گارمنٹس اور تولئے کی ایکسپورٹ میں 3% اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں مالی سال ٹیکسٹائل کی مجموعی ایکسپورٹ میں 14.4% کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح کاٹن کی پیداوار 13 ملین بیلز سے کم ہوکر 9.8 ملین بیلز کی سطح پر آگئی ہے جس کی وجہ سے اس سال ٹیکسٹائل سیکٹر کو بھارت اور دیگر ممالک سے کاٹن امپورٹ کرنا پڑے گی جس سے پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہوگا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر آہستہ آہستہ تنزلی کی جانب کیوں گامزن ہے؟ بھارت نے گزشتہ چند سالوں میں اپنی کاٹن کی پیداوار 18 ملین بیلز سالانہ سے بڑھاکر 32 ملین بیلز سالانہ کرلی ہے اور وہ آج پاکستان کو مقامی مارکیٹ سے سستا کاٹن یارن ایکسپورٹ کررہا ہے جس کو روکنے کیلئے حکومت نے اپٹما کی درخواست پر بھارتی یارن پر کسٹم ڈیوٹی عائد کردی ہے۔ بنگلہ دیش جو کاٹن، یارن اور فیبرک پاکستان، بھارت اور دیگر ممالک سے امپورٹ کرتا ہے، کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس گزشتہ چند سالوں میں پاکستان سے دگنی یعنی 26 ارب ڈالر ہوچکی ہے۔ شرکاء نے بتایا کہ دنیا کی ٹیکسٹائل کی مجموعی تجارت تقریباً 18 کھرب ڈالر سالانہ ہے جس میں پاکستان کا حصہ بمشکل 1%، بنگلہ دیش کا 3.3%، بھارت کا 4.7%اور چین کا 37% حصہ ہے۔ بنگلہ دیش، بھارت اور چین کی پیداواری لاگت کا موازنہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں بجلی کے نرخ خطے میں سب سے زیادہ ہیں۔ بنگلہ دیش 7.3 سینٹ، چین 8.5 سینٹ، بھارت 9 سینٹ جبکہ پاکستان میں 3.53 سینٹ سرچارج سمیت یہ 14.25 سینٹ فی کلو واٹ ہے۔ بنگلہ دیش میں مزدوروں کی کم از کم اجرت 68 ڈالر ماہانہ، چین میں 300 ڈالر، بھارت میں 95 ڈالر اور پاکستان میں 130 ڈالر ماہانہ ہے۔ پاکستان کی مقامی کرنسی دسمبر 2013ء کے بعد سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں تقریباً+ 4.33% مضبوط ہوئی ہے جبکہ بنگلہ دیش میں -0.2%، چین میں -4.2% اور بھارت کی کرنسیوں کی قدر -7.4% کم ہوئی ہیں جو غیر ملکی خریداروں کیلئے پرکشش ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان میں 1% ٹرن اوور ٹیکس اور ایکسپورٹ پر بلاواسطہ4% سے 5% سرچارجز لاگو ہیں جبکہ بنگلہ دیش، چین اور بھارت میں ایکسپورٹ پر ایسا کوئی ٹیکس عائد نہیں جس کی وجہ سے بھارت سے سستا یارن فیصل آباد مارکیٹ میں سپلائی کیا جارہا ہے۔ چین جو پاکستانی یارن کا سب سے بڑا خریدار تھا، اب بھارتی یارن کا سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے۔ ہمارے برادر اسلامی ملک ترکی نے اپنی مقامی صنعت کو تحفظ دینے کیلئے پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات پر 18% سے 24% تک اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کردی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ترکی کو ایکسپورٹ جو ایک ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی، کم ہوکر نصف رہ گئی ہے۔
بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے بھی ہماری مشینوں کی پیداواری استطاعت کم ہوکر 70% رہ گئی ہے جبکہ بنگلہ دیش، چین اور بھارت میں یہ شرح 90% سے زائد ہے۔ اسی طرح پاکستان میں صنعتوں کیلئے گیس کے نرخ 6.7 ڈالر فی MMBTU جبکہ بنگلہ دیش میں 2.6 ڈالر، بھارت میں 4.2 ڈالر اور ویت نام میں 4.5 ڈالر ہیں۔ حکومت نے مالی خسارہ کم دکھانے کیلئے ایکسپورٹرز کے تقریباً 200 ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈ روک رکھے ہیں جو کمپنیوں کے ورکنگ کیپٹل کو متاثر کررہے ہیں اور اس سے صنعتی سرگرمیاں پھیلنے کے بجائے سکڑرہی ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار بارہا وعدے کرنے کے باوجود سیلز ٹیکس ریفنڈ کی ادائیگی میں ناکام رہے ہیں۔ میں نے بتایا کہ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹس میں پیچھے رہ جانے کی ایک وجہ ٹیکسٹائل پالیسیوں پر حکومت اور بیورو کریسی کا عملدرآمد نہ کرنا ہے۔ پاکستان کی پہلی قومی ٹیکسٹائل پالیسی 2009-14ء جس میں میری بڑی محنت شامل تھی، پر صرف 15% عمل ہوسکا جس کی وجہ سے وہ تمام اچھی مراعات جو ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے دی گئی تھیں، فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں۔ اسی طرح نئی ٹیکسٹائل پالیسی 2014-19ء کا اعلان ہونے کے باوجود ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا جبکہ بھارت نے اپنی ٹیکسٹائل پالیسی پر 115% عملدرآمد کرکے دنیا کی مارکیٹ میں اپنا شیئر 3.5% سے بڑھاکر 4.7% کرلیا ہے۔ میں نے شرکاء کو بتایا کہ جب پاکستان کو دسمبر 2013ء میں یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کی ڈیوٹی فری مراعات ملیں تو اسی رات کو بھارتی وزیر تجارت آنند شرما نے بھارتی ایکسپورٹرز کو یورپ کی ایکسپورٹ پر 8% ریبیٹ دینے کا اعلان کیا تاکہ بھارتی ایکسپورٹرز کا پاکستان کی 11% کسٹم ڈیوٹی ختم ہونے سے یورپی یونین میں مارکیٹ شیئر کم نہ ہو۔ شرکاء نے بتایا کہ پاکستان میں صنعت کو بجلی اور گیس کی سپلائی کی ترجیح چوتھے نمبر پر ہے جبکہ دنیا میں صنعتی سیکٹر کی ترجیح پہلے نمبر پر ہوتی ہے۔ دنیا میں ایکسپورٹس ہمیشہ زیرو ریٹڈ ہوتی ہے یعنی ایکسپورٹس کو مقابلاتی رکھنے کیلئے ان پر کسی قسم کے ٹیکسز یا سرچارج نہیں لگائے جاتے جبکہ ہماری ایکسپورٹس پر 4% سے 5% بلاواسطہ ٹیکسز اور سرچارج لاگو ہیں جو ہمیں غیر مقابلاتی بنارہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری سفارشات پر وزیراعظم نواز شریف نے یکم جولائی 2016ء سے ملک کے پانچوں ایکسپورٹ سیکٹرز ٹیکسٹائل، لیدر، کارپیٹ، سرجیکل اور اسپورٹس گڈز کی ایکسپورٹ کو زیرو ریٹڈ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم نے صنعتی سیکٹر کیلئے بجلی کے نرخ میں 3 روپے فی یونٹ کمی کا بھی اعلان کیا ہے جس سے یقینا صنعتی سیکٹر کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی لیکن ان اعلانات پر عملدرآمد سوالیہ نشان ہے۔
میں کسی صنعت کو مستقل بنیادوں پر حکومتی سبسڈی دینے کا مخالف ہوں لیکن ایکسپورٹرز کو Level Playing Field فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں ہر ماہ ایکسپورٹرز کی وزیر ٹیکسٹائل سے میٹنگ ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں گزشتہ دو سالوں سے ٹیکسٹائل کا کوئی وفاقی وزیر ہی نہیں ہے جس سے ملکی معیشت کے سب سے بڑے سیکٹر کیلئے حکومت کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی ناقص حکمت عملی اور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے اس سیکٹر کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہمیں عالمی مارکیٹ میں غیر مقابلاتی بنارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر اپنے چھوٹے یونٹس کو توسیع دے کر جدید مشینوں کے ذریعے اپنی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں کمی لائے اور بنیادی ٹیکسٹائل مصنوعات سے نکل کر ویلیو ایڈیشن کو اپنائے۔ اسکے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرکے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو حقیقی معنوں میں زیرو ریٹڈ کرنا ہوگا بصورت دیگر پاکستان کا کمائو پوت ٹیکسٹائل سیکٹر غیر مقابلاتی ہوکر اپنا مارکیٹ شیئر کھودے گا جس سے ملک میں لاکھوں بے روزگاروں کا سیلاب امڈ آئے گا۔
تازہ ترین