• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتدار کے تین ماہ تمام ہونے کو ہیں، لیکن ابھی تک پاکستان تحریک ِ انصاف نے یوٹرن کی عادت، بے بنیاد الزام تراشی اور غلط بیانی کی روش ترک نہیں کی ہے ۔ بہت سے امور پر بات کی جاسکتی ہے ، لیکن سرِدست اندرونی اور بیرونی قرضوں کا ذکر کرلیتے ہیں۔ اس ضمن میں نہ صرف وزیراعظم عمران خان نے متعدد مواقع پر غلط حقائق بیان کئے، بلکہ اُن کے ماتحت افراد بھی مسلسل ایسا ہی کر رہے ہیں۔حقیقت کچھ اور ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے شروع ہونے والا معاشی انحطاط پی ٹی آئی کی قیادت کے غلط اور غیر ذمہ دارانہ بیانات کا نتیجہ ہے۔

وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ جب جنرل مشرف کا 2008ء میں اقتدار ختم ہوا تو قومی قرضے کا حجم چھے ٹریلین روپے تھا، اور جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی مدت مکمل کی تو یہ قرضہ تیس ٹریلین روپے ہو چکا تھا۔ باقی باتیں اپنی جگہ ، لیکن مجھے ان کی طرف سے ابتدائی تاریخ کا انتخاب بہت عجیب دکھائی دیا ہے ۔ کیا وہ یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جنرل مشرف کا دور پاکستانی معیشت کے لئے ایک سنہرا دور تھا؟ کیا وزیر ِاعظم بھول گئے ہیں کہ مغرب نے افغان جنگ میں شریک ہونے پر پاکستان کا کتنا قرضہ معاف کردیا تھا، اور امداد کی کتنی فراوانی تھی؟ کیا ان کو یاد نہیں کہ قوم نے اس جنگ میں شریک ہونے کی کتنی بھاری جانی اور مالی قیمت چکائی ہے؟ بلکہ اب تک چکارہی ہے ۔

وزیراعظم اور اُن کے وزرا قوم کو یہ نہیں بتارہے کہ ہماری قومی آمدنی (جی ڈی پی) گزشتہ جمہوری عشرے کے دوران 10.6 ٹریلن ڈالر ، جو 2008ء میں تھی، سے بڑھ کر 2018ء میں 34.4بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ اس طرح ان دس سالوں کے دوران جی ڈی پی میں 23.8 فیصد اضافہ ہوا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ اعدادوشمار ہیں، لیکن پی ٹی آئی کی قیادت بھی تو محض اعدادوشمار کا ذکر کررہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ میں حقیقی اعدادوشمار پیش کررہاہوں۔

جون 2008ء میں ملکی قرضوں کاحجم 14.25 ٹریلین روپے تھا۔ یہ 2018ء میں بڑھ کر 24.95ہوگیا۔اس عرصے میں 10.7ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا۔ پی ٹی آئی جس 30ٹریلین روپے قرض کی دہائی دے رہی ہے ، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ ملکی قرضے میں نجی اور سرکاری تنظیموں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے بیرونی انویسٹرز کے ذمہ واجب الادا رقوم اور مختلف منصوبوں کے لئے صوبوں سے لئے گئے قرضوں کو بھی شامل کررہی ہے۔ دنیا کاکوئی ماہر ِ معاشیات پبلک ڈیٹ کی تعریف اس طرح نہیں کرتا۔ اس کی بجائے وہ حکومت کے اندورنی اور بیرونی قرضوں کو پبلک ڈیٹ میں شامل کرتے ہیں، جیسا کہ میں نے کیا ہے ۔ درحقیقت بہت سے معاشی ماہرین نیٹ پبلک ڈیٹ کے اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف بھی ملکی قرضے کی یہی تعریف تسلیم کرتا ہے ، اوریہی تعریف ہمارے پبلک ڈیٹ قانون کا حصہ ہے ۔

ہمارا بیرونی قرضہ ، جس میں پبلک ڈیٹ بھی شامل ہے ، جو ن 2008 ء میں 48.14 بلین ڈالر تھا۔ یہ جون 2018 ء میں 70.24 بلین ڈالر ہوگیا۔گویا اس مدت کے دوران 22.1 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ۔ اب پی ٹی آئی کے رہنما حال ہی میں سعودی عرب سے چھ بلین ڈالر قرضہ لے کر واپس لوٹے ہیں، اور خوشی سے اُن کے پائوں زمین پر نہیں ٹک رہے ۔ میں بہت آسانی سے دو پیش گوئیاں کرسکتا ہوں۔ کفایت شعاری سے کام لینے اور پبلک ڈیٹ میں اضافہ نہ کرنے کاغلغلہ اپنی جگہ پر، لیکن ایک بات یقینی دکھائی دیتی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت رواں برس اُس سے کہیں زیادہ بیرونی قرضہ لے گی جتنا اس عرصے میں پی ایم ایل (ن) کی حکومت نے اوسطاً حاصل کیا تھا۔ موجودہ حکومت رواں برس 2.14 ٹریلین روپے قرض لے گی۔ وزیر ِاعظم تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمارے تمام بجٹ کا آڈٹ کرائیں گے ، اور احتساب کریں گے۔ سابق حکومت کے دوران کئی ایک حیثیتوں سے ملک کی خدمت کرنے کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے ، میں پی ٹی آئی کی قیادت سے کہتا ہوں کہ دیرنہ کریں فوراً آڈٹ کرائیں۔ بہرحال بطور ایک سیاست داں اور اکانومسٹ، میں امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے دعوے کی لاج رکھتے ہوئے آڈٹ ضرور کرائیں گے اور اس کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کریں گے ۔ اس سے اُن کے الزامات بے نقاب ہوجائیں گے بلکہ آڈٹ سے ہمارے سامنے کچھ نئی چیزیں بھی سامنے آجائیں گی، اور ہمیں ان سے سیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔ 

قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ ہم نے اپنے دور ِحکومت میں جو 10.7 ٹریلین روپے قرض لیا، اُس کا کیا بنا؟ یہ کوئی معمولی رقم نہیں ہے ۔ یہ اپنی حکومت کے دوران پی پی پی کی حاصل کردہ رقم سے 2.7ٹریلین روپے زیادہ ہے ۔ اس کا مختصر حساب پیش کرتا ہوں۔ پانچ سالوں کے دوران ہم نے صوبوں کو 9.1ٹریلین روپے منتقل کئے ۔ اس سے پہلے پی پی پی دور میں صوبوں کوملنے والی رقم کا حجم اس سے کم وبیش نصف، یعنی 4.6 ٹریلین روپے تھا۔ نواز شریف ملک کو تیزی سے ترقی دینا، اور اس کا انفرا اسٹرکچر تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ہم نے 2.6ٹریلین روپے پبلک سیکٹر کے تحت ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے ۔ ہم نے ان منصوبوںسے کیا حاصل کیا ؟ ہم نے بلوکی اور حویلی بہادر شاہ میں گیس سے چلنے والے پاور پلانٹس لگائے جن سے 1200میگا واٹ بجلی پیدا ہورہی ہے ۔ ان میں دنیا کی انتہائی کم خرچ ٹربائنز لگائی گئیں۔ تیسرا پلانٹ، بھھکی پنجاب حکومت نے قائم کیا تھا۔ ہم نے کراچی کے قریب دو نیوکلیئر پاورپلانٹس پر کام شروع کیا اور خاص طور پر خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور بلو چستان1700 کلومیٹر موٹر ویز اور ہائی ویز تعمیر کیں۔ یورپ کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک بھی اتنی تیزی سے اتنی سڑکیں تعمیر نہیں کرسکتے جتنی ہم نے پاکستان میں تعمیرکیں۔

نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوا، لیکن پی پی پی دور میں اس پر کام نہ ہوا۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) نے اسے کامیابی سے مکمل کیا۔ ہم نے تربیلا کے چوتھے توسیعی منصوبے کو مکمل کیا۔ یہ منصوبہ بھی جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوا تھا۔ نندی پور پاور پروجیکٹ کی مشینری کراچی پورٹ پر گل سڑ گئی، کیونکہ پی پی پی کے وزیر ِ قانون کو اس منصوبے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یہ مسلم لیگ (ن) ہی تھی جس نے یہ منصوبہ مکمل کیا۔ ہندوکش کے پہاڑوں میں لورالائی ٹنل کا افتتاح وزیر ِاعظم بھٹو نے کیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو نے ستمبر 1975 ء میں، لیکن اسے کامیابی سے مکمل کرنے کی سعادت بھی مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئی ۔

ہم نے غریب افراد میں 400 بلین روپے تقسیم کئے یہ رقم بھی پی پی پی دور میں تقسیم کی گئی رقم سے دگنی تھی۔ تاہم مکمل حساب کے لئے مجھے پی ٹی آئی کے آڈٹ کا انتظار رہے گا۔ اسی سے ہی پتہ چلے گا کہ مسلم لیگ (ن) نے مالیاتی ذمہ داری ادا کرکے اس قوم کی کتنی خدمت کی ہے۔

(صاحب ِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین