• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی حرفت (تعلیم) اور سماجی ترقی کے بڑے کارنامے، کمزور ارادوں کے ساتھ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچائے جاسکتے۔ اگر عالمی برادری، دنیا بھر کے تمام بچوں کو معیاری تعلیم دینے کے وعدے پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ ہے تو چاہے حالات کچھ بھی ہوں، انھیں اس کے لیے درکار سرمایہ کی کمی کے مسئلے سے اس طرح نمٹنا ہوگا، جس کے حالات متقاضی ہیں۔

جنگ عظیم دوم کی تباہی کے اثرات سے نکلنے کےلیے1940ء کے عشرے کے اواخر میں، تخلیقی سوچ رکھنے والے افراد کا ایک گروہ سامنے آیا، جس نے دنیا کے لیے نئے ادارے بنانے کی ٹھانی۔ دو دہائیوں بعد، اس وقت کو یاد کرتے ہوئے، امریکی وزیر خارجہ ڈین ایچیسن نے کہا تھا، ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کل کی بات ہو، جہاں میں بھی موجود تھا‘۔ عالمی برادری کو احساس ہوچکا تھا کہ ’خوشحالی‘ ناقابلِ تقسیم ہے، جسےیا تو سبھی حاصل کرسکتے ہیں یا پھر کوئی نہیں۔

ایسا ہی کچھ رواں صدی کی ابتدا میں بھی کرنے کی کوشش کی گئی، جب اقوامِ متحدہ کے 191رکن ملکوں نے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز (MDGs)پر اتفاق کیا، ترقی پذیر ملکوں کے لیے قرضوں میں 100ارب ڈالر کی رعایت حاصل کی، ایڈز، ٹی بی اور ملیریا جیسے امراض کا خاتمہ کرنے کے لیے عالمی فنڈ قائم کیا اور بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے لیے بین الاقوامی سرمایے کی دستیابی کو یقینی بنایا۔ حفاظتی ٹیکوں کے عالمی پروگرام کے لیے 5ارب ڈالر قرض کی سہولت حاصل کی گئی، جس سے دنیا بھر میں 64کروڑ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے گئے اور 90لاکھ سے زائد انسانی جانیں بچائی گئیں۔

حال ہی میں، عالمی برادری نے 2030ء کے لیے پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs)پر اتفاق کیا ہے اور 2015ء پیرس ماحولیاتی معاہدے کو اپنا کر سب سے بڑے عالمی خطرے سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ہرچندکہ ایک ایسی دنیا جہاں ٹیکنالوجی کے میدان میں تیز تر اور دور رس تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، تعلیم کے میدان میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس قدر بڑے پیمانے پر ابھی تک کوئی کوشش سامنے نہیں آئی۔دنیا بھر میں، اسکول سے باہر 26کروڑ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے علاوہ، ہمیں غریب ترین ملکوں پر چوتھے صنعتی انقلاب اور نئی ٹیکنالوجیز کےسماجی و معاشی اثرات سے نمٹنے کے لیے بھی تیاری کرنی ہے۔

یہ ضرور ہے کہ دنیا نے پائیدار ترقی کے اہداف کےتحت سب کے لیے معیاری او رمساوی تعلیم کو یقینی بنانے کی طرف پیش رفت کی ہے۔ برسوں بعد پہلی بار تعلیم کے شعبہ میں دوطرفہ امداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔ رواں سال کی ابتدا میں تعلیم پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں، دنیا بھر کے ملکوں نے تعلیم کے لیے زیادہ سے زیادہ ملکی وسائل مختص کرنے کی ہامی بھری ہے، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ تعلیم انتظار نہیں کرسکتی (Education Cannot Wait)فنڈ کے تحت بحرانوں اور ایمرجنسی میں گھرے خطوں میںزیادہ سے زیادہ تعلیمی پروگرام شروع کیے جارہے ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر تعلیم کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔

تاہم، سب کے لیے معیاری تعلیم کے وعدے پر عمل درآمد آج زیادہ چیلنجنگ اور پیچیدہ بن چکا ہے، بنسبت اس وقت کے جب پائیدار ترقی کے اہداف 2030ء کو اختیار کیا گیا تھا۔ ساڑھے 7کروڑ بچے تنازعات او رانسانی بحرانوں کی زد میں ہیں اور خدشہ ہے کہ مستقبل قریب میں بھی انھیں تعلیم کے حصول میں رکاوٹوں کا سامنا رہے گا، جس کے لیے انھیں مدد کی ضرورت ہے۔دنیا کے 4میں سےصرف 1پناہ گزین بچہ ثانوی تعلیم حاصل کرپائے گا اور صرف 1فیصد بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جائیں گے۔

مزید برآں، تازہ جائزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً 40کروڑ بچے اپنی پرائمری تعلیم مکمل نہیں کرپائیں گے اور دنیا بھر میں اسکول جانے والے بچوں میں سے آدھے یا 80کروڑ سے زائد بچے ، اپنی بلوغت کی عمر میں جدید دور کی افرادی قوت کے لیے مطلوب قابلِ ذکر تعلیمی سند کے بغیر داخل ہونگے۔

’معیاری اور مساوی تعلیم سب کے لیے‘ کے ہدف کو حاصل کرنے کی ذمہ داری صرف غریب اور کم آمدنی والے ملکوں پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ عالمی سطح پر تعلیم کے میدان میں سالانہ 12ارب ڈالر کی امداد دی جاتی ہے۔ اگر کم اور کم تر آمدنی والے ممالک، تعلیم پر اپنے اخراجات کو دوگنا کردیں اور اپنی کارکردگی کو بہترین ملکوں کی سطح پر لے آئیں، تب بھی تعلیم کے میدان میں ’پائیدار ترقی کے اہداف 2030ء‘ کو حاصل کرنے کے لیے مزید کئی ارب ڈالر درکار ہونگے۔

اگر پاکستان کی بات کریں تو ایک اندازے کے مطابق اسکول جانے کی عمر رکھنے والے تقریباً 2کروڑ 40لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ پاکستان نے بھی ’پائیدار ترقی کے اہداف 2030ء‘ پر دستخط کیے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان ملینیم ڈویلپمنٹ گولز (MDGs)کےتحت 2015ء تک اپنے سب بچوں کو تعلیم دینے کے وعدے پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ 2030ء کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اب پاکستان کواپنی کوششوں، دیانت اور سنجیدگی کو کم از کم دوگنا کرنا ہوگا۔ اور گزشتہ کئی برسوں سے تعلیمی بجٹ کو جی ڈی پی کے 4فیصد تک لانے کا جو وعدہ قوم سے کیا جارہا ہے، اسے عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ یہ وہ کم از کم بنیادی شرائط ہیں، جو 2030ء کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے شروع کیے جانے والے سفر کا نقطہ آغاز بن سکتے ہیں۔

تازہ ترین