• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی ہے ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے آل پارٹیز کانفرنس ( اے پی سی ) ملتوی کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے اور اس کا سبب یہ بیا ن کیا ہے کہ اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات کی وجہ سے اے پی سی کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے تھے ۔ اس صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر اعظم عمران خان کی حکومت احتساب کے اپنے عمل کو تیز کر دے گی تاکہ اپوزیشن کی تقسیم کا فائدہ اٹھایا جا سکے ؟

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے حالیہ انٹرویوز اور بیانات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ ایک بار پھر جیل جانے کو تیار ہیں لیکن وہ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ مل کر سیاست نہیں کریں گے کیونکہ ان کے بقول میاں صاحب نے ماضی میں کئی بار ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا لیکن آصف علی زرداری اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں بشمول حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو مل کر اس ملک کو بحران سے نکالنا چاہئے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس وقت پاکستان میں کسی قسم کے سیاسی تصادم کے خلاف ہیں اور بین السطور انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو بھی یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ سیاسی تصاد م سے گریز کریں ۔

وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری بار بار ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ وہ نہ صرف اپوزیشن کے رہنماؤں کو این آر او نہیں دیں گے بلکہ کسی کو بھی ان سے این آر او کی توقع نہیں رکھنی چاہئے ۔ تحریک انصاف کے بعض رہنما یہ تاثر بھی دے رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنما اپنے مقدمات میں ریلیف لینے یا گرفتاریوں سے بچنے کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف سخت موقف اختیار نہیں کر رہے اور انہوں نے اسی وجہ سے مولانا فضل الرحمن کی بلائی گئی اے پی سی میں شرکت سے انکار کر دیا ۔ تحریک انصاف کے رہنما آصف علی زرداری کے اس موقف کو وزن دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ملک کسی بھی قسم کے سیاسی تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ آصف علی زرداری کا یہ موقف تحریک انصاف کے رہنماؤں کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور اگر کوئی اس موقف کی حمایت کرے تو وہ کرپشن کا حامی قرار پاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف اس راستے پر تیزی سے گامزن ہو گی ، جس کے لیے اس نے انتخابات سے قبل نعرہ لگایا تھا کہ کرپشن میں ملوث کسی شخص کو نہیں چھوڑا جائے گا اور اسے تحریک انصاف اپنا ایجنڈا قرار دیتی ہے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی تحریک انصاف کے واحد رہنما ہیں ، جو اپنی جماعت کے اکثر رہنماؤں کے بیانیے پر نہیں چلتے ہیں کیونکہ وہ بہت مختلف سیاسی پس منظر رکھتے ہیں ۔ تحریک انصاف کے زیادہ تر رہنماؤں کے بیانیے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انہیں کسی ممکنہ سیاسی تصادم کے نتائج کی پروا نہیں ۔ کچھ رہنما تو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن سیاسی تصادم کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔

اس طرح تحریک انصاف کی قیادت یہ ماننے کے لیے تیار نہیں یہ کہ ملک میں کوئی سیاسی تصادم کی فضا پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے نزدیک اپوزیشن بہت کمزور ہے اور آپس کے اختلافات کی وجہ سے متحد بھی نہیں ہو سکتی ہے ۔ تحریک انصاف کی قیادت میں یہ سوچ پیدا ہونے کے بہت سے اسباب ہیں ، جن پر بات کرنا غیر متعلق ہو گا کیونکہ وہ اسباب کو تسلیم بھی نہیں کرے گی لیکن معروضی حالات تو اپنی سمت کا تعین خود کرتے ہیں ۔ چاہے کوئی ان حالات کا ادراک کرے یا نہ کرے ۔ حقیقت یہ ہے کہ 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات ہماری تاریخ کے سب سے زیادہ خونی عام انتخابات تھے ۔ 20 جولائی سے 25 جولائی تک دہشت گردی کے 7 بڑے واقعات ہوئے اور ان میں دہشت گردوں نے انتخابی ریلیوں اور امیدواروں پر حملے کیے ۔ ان 7 واقعات میں 200 سے زائد افراد شہید اور 500 سے زائد زخمی ہوئے ۔ یہ واقعات پشاور ، بنوں ، ڈیرہ اسماعیل خان ، کوئٹہ اور مستونگ میں رونما ہوئے ۔ یعنی پاکستان کی مغربی پٹی کو نشانہ بنایا گیا ، جو موجودہ علاقائی اور بین الاقوامی سیاست میں تزویراتی ( اسٹرٹیجک ) اہمیت کی حامل ہے ۔ دہشت گردی کی ان کارروائیوں کے پس پردہ پاکستان دشمن قوتوں کے کوئی نہ کوئی مقاصد ہوں گے ۔ انتخابات کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سعودی عرب ، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک کے قرضوں اور مالی امداد کو ترجیح دی اور عالمی مالیاتی فنڈز ( آئی ایم ایف ) پر مزید انحصار کرنے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی ۔ وزیر اعظم عمران خان کو وقت کے ساتھ ساتھ احساس ہو رہا ہے کہ پالیسیوں میں تبدیلی اس قدر آسان نہیں ہوتی ۔ جو کام وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے حوالے سے کرنا چاہتی ہے ، وہ کام غیر جمہوری فوجی حکومتیں آسانی سے کر سکتی تھیں لیکن انہوں نے این آر او کیا ۔ معاملات اس قدر سادہ نہیں ہیں اور کرپشن میں سیاست دانوں کے علاوہ بھی لوگ ملوث ہیں ۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

اللہ کرے کہ ملک میں کوئی سیاسی تصادم کی فضا پیدا نہ ہو ۔ پاکستان بہت نازک حالات سے گزر رہا ہے ۔

تازہ ترین