• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عارف نقوی ابراج کے دیوالیہ ہونے کے ذمہ دار نہیں، وکیل کا بیان

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) معروف تاجر اور مخیر شخصیت عارف نقوی کو مشکل کے شکار ابراج انوسٹمنٹ فنڈ کے دیوالیہ ہونے کا کسی طرح ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، یہ بات ان کے وکیل نے کی ہے۔ بیکر اینڈ مکینزی کے ایگزیکٹو چیئرمین حبیب الملا نے کہا ہے کہ ابراج کے سی ای او عارف نقوی کو گروپ کے دیوالیہ ہونے کا ذمے دار قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ وہ اچھی حیثیت کا حامل ہے۔ دبئی کے معروف ابراج کے زوال سے، جسے دنیا کا سب سے بڑا انسولوینٹ پرائیویٹ اکویٹی فنڈ قرار دیا گیا ہے، پر متحدہ عرب امارات اور اس سے آگے کارپوریٹ بدانتظامی اور شفافیت پر سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ تاہم نقوی کے وکیل نے کراچی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی تاجر کا دفاع کیا ہے، جو اب زیادہ تر پاکستان اور لندن کے درمیان رہتے ہیں۔ وکیل نے دبئی فنانشل سروسز اتھارٹی سمیت لوکل ریگولیٹرز کی طرف نشاندہی کی اور خیال ظاہر کیا ہے کہ نظام میں خرابیاں ہیں۔ الملا کے کریڈٹ پر دبئی کے بہت سارے جدید لیجسیلٹو سٹرکچرز کی ڈرافٹنگ ہے اور جنہوں نے متحدہ عرب امارات میں فنانشل فری زونز کا نظریہ تخلیق کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آیا یہ واقعہ ریگولیشن کے فقدان کے باعث ہوا ہے، وہ صاف صاف کہیں گے کہ نہیں، اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ آیا اتھارٹی اس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد اس کو محدود کرنے کا بہتر کام انجام دے سکتی تھی تو میں کہوں گا کہ ہاں۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں انہوں نے صورتحال کی اہمیت کا اندازہ نہیں کیا۔ اگر ڈی ایف ایس اے پہلے آجاتی، ان خدشات سے نمٹتی اور میڈیا کو سنبھالتی تو اس سے بچا جاسکتا تھا۔ ابراج کا قیام2002ء میں عمل میں آیا تھا۔ وہ انتظامیہ کے ماتحت14ارب ڈالر کا حامل ہونے کے باعث مشرق وسطیٰ میں ایک بڑا فنڈ بن گیا تھا۔ فنڈ کے سی ای او عارف نقوی نے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فائونڈیشن، ورلڈ بینک اور امریکی حکومت سمیت ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں اچھے کام کے وعدے پر انویسٹرز سے اربوں ڈالر حاصل کئے۔ اس سال فروری میں ابراج گروپ نے اپنی اندرونی مشکلات کا افشا شروع کردیا تھا۔ ابراج کی سٹوری کے باہر آتے ہی عارف نقوی نے کسی بھی غلطی کی تردید کی تھی اور زور دیا تھا کہ فنڈ کی کوئی خوردبرد نہیں ہوئی اور اب اس کے وکیل نے زور دیا کہ کرپشن اور فنڈ کا غلط استعمال نہیں کیا گیا، اگر ڈائریکٹرز غلطی کرتے، یا کسی قانون یا ضابطوں کی خلاف ورزی ہوتی تو ہم ریگولیٹرز کو مختلف اپروچ اختیار کرتے دیکھتے اور اب تک ہم دیکھ چکے ہیں، کسی ریگولیٹرز نے ابراج اور اس کے ڈائریکٹرز کے خلاف کوئی الزام نہیں لگایا، یہ صرف میڈیا تھا۔ دریں اثنا عارف نقوی نے وال سٹریٹ جرنل میں شائع رپورٹ کے ان دعوئوں کی تردید کی ہے کہ انہوں نے پاکستان میں کے الیکٹرک میں ابراج کے حصے کی فروخت میں تعاون کے لئے پاکستانی تاجر کو20ملین ڈالر کی پیش کش کی تھی۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عارف نقوی نے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کا تعاون حاصل کرنے کے لئے ایک پاکستانی تاجر کوبھاری مالیت میں ڈالر دیئے تھے۔ عارف نقوی نے کہا کہ رشوت کے دعوے بالکل جھوٹے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے نامعلوم افراد، جو میرے اور ابراج کی شہرت سے حسد کرتے ہیں، کے الیکٹرک کی فروخت، میری ا ور ابراج گروپ کی شہرت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ عارف نقوی نے کہا کہ انہوں نے ابراج کے فنڈز میں سے کسی میں خوردوبرد نہیں کی، ابراج گروپ کے فنڈ کے لئے میرے یا میرے اہل خانہ یا ذاتی سرمایہ کاری کے لئے کوئی درخواست نہیں پائی جاتی۔

تازہ ترین