• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد عمر توحیدی…اولڈہم
ربیع الاول وہ مبارک مہینہ ہے، جس میں سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، تاجدارِ عرب و عجم پیشوائے انبیا، خاتم المرسلین جناب احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ ﷺ اس دُنیا میں تشریف لائے، جو ادیانِ عالم کے خاتم، ہادیٔ کل اور تمام جہانوں کے لئے رحمت و سراپا رفعت بنا کر بھیجے گئے۔ دُنیا کو کفر و شرک کی تاریکی سے نکالا اور توحیدِ باری تعالیٰ کے انوار سے کائناتِ عالم کا گوشہ گوشہ منور کر دیا ۔ جب حضور نبی کریم ﷺ کی بعثت ہوئی تو سر زمینِ عرب کا ذرّہ ذرّہ کفر و شرک کی گھنگور گھٹائوں میں اٹاہوا تھا۔ اللہ کو چھوڑ کر لوگوں نے بُتوں کی پُوجا شروع کر رکھی تھی اور نہ صرف عرب کا یہ حال تھا بلکہ دُنیا کے ہر حصے اور گوشہ کا تقریباً یہی منظر تھا کہ بندگانِ خدا نے خدا سے رِشتہ توڑ کر بُتوں سے رِشتہ جوڑلیاتھا، کہیں پتھروں کی پُوجا کی جاتی تھی تو کہیں آگ و آفتاب کی پرستش اور ستاروں کواپنا معبود بنایاہواتھا۔ انسان نے انسانیّت کو بُھلا کر حیوانیّت کا رُوپ دھار لیا تھا، لڑائی، جھگڑا ، قتل و غارت ـــشب و روز کا شیوہ بن چکا تھا۔ غریب کو ظلم کی چکی میں پیساجاتا اور امیر کو معاف(این ۔آر۔او) کر دیا جاتا۔ عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئے بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دَر گور کر دیا جاتا تھا۔ الغرض ساری دُنیا معصیّت اور شرک و بُت پرستی کا گہوارہ بن چکی تھی اور کسی جگہ بھی اخلاق اور نیکی کا کوئی معیار باقی نہ رہا تو خدائے رحمان و رحیم نے اپنے بندوں پہ خاص رحم فرما کر حضورنبی کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ آپ ﷺ بفضلِ تعالیٰ دُنیا کو بدّی اور بُرائی سے نجات دِلائیں اور اللہ کی مخلوق جو کفر و شرک کے اندھیروں میں بھٹکتی پِھر رہی تھی اس کوروشنی(توحید باری تعالیٰ) پر گامزن کریں، چنانچہ دُنیا نے دیکھا کہ حضور ﷺ نے اس عالمِ رنگ و بُو میں تشریف فرما ہونے کے بعد کس طرح کُفر و شرک کی تاریکیوں کو دُور فرمایا۔ کس انداز سے مخلوق کو خالق سے مِلایا اور خدا کی زمین کو بُرائیوں سے پاک کر کے نیکیوں سے بَھر دِیا۔ وہی سر زمینِ عرب جو بُرائیوں کا گہوارہ تھی، چند ہی سالوں میں نیکیوں اور سعادتوں کا بحرِ ذخار بن گئی، ایک ایسا بحرِ ذخار جس کی موجوں نے عرب سے اُٹھ کر ساری دُنیا کو سیراب کر دِیا اور کائنات میں پھیلی ہوئی بنجر زمینوں کو نیکیوں کے سبز و گل سے چمنِ گل زار میں تبدیل کر دِیا۔ وہ انسان، جس نے انسانیّت کو بُھلا کر حیوانیّت کا رُوپ دھار لیا تھا ، اُسے اخوّت کا درس دِیا ۔
یقیناً اس ابرِ کرم کے ظہور کا دِن ساری دُنیا کے لئے عموماً اورہم غلامانِ محمد ﷺ کیلئے ایسا مسعود ومبارک دِن ہے کہ ہم اس انعام خداوندی پر جتنا شکر کریں کم ہے اور جس قدر مسّرت وانبساط کا اظہار کریں تھوڑا ہے۔ فی الحقیقت وہ ساعت بڑی ہی مبارک اور مسعود تھی جس میں دُنیا کے ہادیٔ اعظم، مجسمِ ہدایت ﷺ عالمِ آب و گل میں تشریف لائے اور اپنے مقدّس وجود سے دُنیا کی تاریکیاں اور ظلمتیں دُور کر دیں اور ساری کائنات کو نورِ ہدایت (توحید)سے منوّر کر دِیا، لیکن دیکھئے ! ان مسرتوں اور شادمانیوں کے تذکرے کے ساتھ یہ بات بھی فراموش نہ کی جائی کہ جس مبارک مہینے میں فخرِ دو عالم ﷺ اس دُنیا میں تشریف لائے، اُسی ماہِ مقدس میں اس دُنیا سے رُخصت بھی ہوگئے اور کائنات کو اپنی جدائی کے صدمے سے نڈھال اور تڑپتاہواچھوڑ کر اپنے رب اور رفیق اعلیٰ سے جا مِلے۔ ظاہر ہے سیدالعاشقین ﷺ کا اس ماہِ مبارک میں مبعوث ہونا اور اس ماہِ مقدس میں ہی دُنیا عالم سے عالم جاویدکا سفر طے کر جانا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اَمر کا واضح اعلان ہے کہ اے دُنیا والو ! جان لو کہ صرف میرے حبیب ﷺ کے میلاد کا تذکرہ ہی تمہارے لئے کافی نہیں بلکہ اُن کی پاکیزہ اور نمونۂ ہدایت زندگی کا ہر ہر لمحہ تمہارے لئے سراج ہدایت اور نشانِ منزل ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چَل کر انسان مسرتوں اور شادمانیوں کی حقیقی اور لافانی دُنیا کی طرف قدم بڑھا سکتا ہے اور منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔ یاد رکھو ! جب نبی کریم ﷺ کے میلاد کا تذکرہ کیا کرو تو ان کے وصال کو بھی پیشِ نظر رکھا کرو اور اس حقیقت کو اپنے قلب و نظر میں پیوست کر لو کہ جو شخص بھی اس دُنیا میں آیا ہے اُسے لوٹ کر واپس ضرور جانا ہے۔ بقا فقط ذات باری تعالیٰ کو ہے، چنانچہ ہر انسان کو اللہ کی عظمت ، اپنی بے بسی اور عالمِ آخرت کا نقشہ ہر گھڑی اپنے سامنے رکھنا چاہئے ۔پس اگر ہم اس کیفیت کو اپنا سکیں اور اپنی زندگیوں کو نبی کریم ﷺ کی زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کے قابل بنا سکیں تو ہماری حیاتِ مستعار کا ہر لمحہ اور ہر دِن میلاد النبی ﷺ منانے کا دِن ہو گا، لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں میلادالنبی ﷺ کا صحیح سرور اور محبتِ رسول ﷺ کا ذوقِ کامل نصیب ہو جائے اور ہم دُنیا و آخرت کے نقصان والی حالت سے باہر نکل آئیں تو نبی کریم ﷺ کی کامل اتباع اور آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی مکمل پیروی کرنا پڑے گی۔ آئیے ہم اس ربیع الاول میں یہ عہد کریں کہ اپنی بقیہ زندگی حضورِ اقدس حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے طریقے پر گزاریں گے اور آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا کامل اتباع کریں گے، کیوں کہ یہی وہ راستہ ہے جسے اپنا کر ہم دونوں جہانوں کی حقیقی کامیابی و کامرانی سے ہم کِنار ہو سکتے ہیں۔ یہی اس ماہ مبارک کا پیغام ہے۔ واخردعوٰناان لحمدللہ رب العٰلمین۔
تازہ ترین