• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بنگلہ دیش میں شاہینوں کی بدترین اورعبرتناک شکست نے پھر تلخ یاد یں تازہ کردی ہیں،دشمن ملک قرار دئیے جانے والے بھارت کو ہم تعلیم ،صحت اورجدید ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تو مات دینے کی دور تک صلاحیت نہیں رکھتے کم از کم کھیل کے میدان میں تو اپنے وقار کا خیال کرلیتے، لیکن کہتے ہیں کہ جیسے اعمال ہوں گے نتیجہ بھی ویسا ہی ہوگا،،ابھی چند روز پہلے سرکاری اسکول کے رنگ برنگ درودیوار، چھوٹے بچوں کا پلے ایریا، چمکدار برآمدے اور کلاس روم، صاف ستھرے واش روم اور مختلف کھیلوں کے ہرے بھرے کورٹس دیکھ کر وزیراعظم کا چہرہ خوشی سےتمتما رہا تھا اوران کی صاحبزادی بھی بےحد مسرور اور فاتحانہ انداز میں ہاتھ ہلاہلاکر مستقبل کےمعصوم معماروں کواپنی آمد کا احساس دلارہی تھیں، وزیراعظم کبھی بچوں سےاپنانام پوچھتے،کبھی ان سے اسکول کی پہلی اور اب کی حالت کے بارے میں معلوم کرتے، وفاقی دارالحکومت کےسرکاری اسکولوں کی حالت بدلنے اور انہیں جدید سہولتوں سےمزین کرنے کاٹھیکہ امیر ترین اسکولوں کےارب پتی مالکان کے حوالے کردیا گیا ہے، یعنی تعلیم کوبھی آؤٹ سورس کردیا گیاہے شاید وزیراعظم صاحب کے علم میں نہ ہو کہ وفاقی دارالحکومت میں رہنے والے مکینوں کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلہ تک نہیں ملتا ،آبادی کے لحاظ سےگنجائش نہیں،جہاں کچھ مواقع ہیں وہاں پہلی کلاس میں داخلے کے لئے بھی وفاقی وزیر کی سطح کی سفارش چاہئے ،غریب بچہ کہاں جائے؟، لیکن جلدی ترقی کرنی ہے،ننھے بچوں کے ہاتھوں میں میرا قائد نوازشریف ،آپ کا شکریہ وزیراعظم کے پلے کارڈز دیکھ کرمیرا ذہن پانچ سال پیچھے چلاگیا ،وہ تعلیم کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے خلاف روایت میرے لئے چائے بناکر لاتے ہوئےبار بار پاکستان کے نظام تعلیم کی بہتری کے بارے میں دریافت کررہے تھے، میں ان کے ہرسوال سے متفق ہونے کے باوجود اپنی قوم اور اس کی سرسٹھ سالہ تاریخ کے دوران کبھی ووٹ اور کبھی طاقت کے بل بوتے پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والی قیادت کے محض دعوؤں پر مبنی کوششوں سے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہا،سوالیہ انداز میں کہا ، پاکستان ، بھارت ، سری لنکا اور جنوبی ایشیائی خطے کے کئی ممالک میں جا کر تعلیمی نظام کا قریبی مشاہدہ کیا ہے آپ کے حکمراں بڑے پرعزم ہوکر تعلیمی نظام کی بہتری کی باتیں کرتے ہیں لیکن وہ عملی طور پر اس میں کامیاب نہیں ہوپاتے کیوں؟بدقسمتی سے میرے پاس اس مرتبہ بھی کوئی ٹھوس دلیل نہیں تھی کہ میں انہیں اپنے ملک میں بادشاہوں کی سی زندگی گزارنے والے ہر دور کے حکمراں کی تعلیم سے محبت اوران کی ترجیح کی حقیقت بتانے میں ناکام رہا، آخر میں بولے کہ جدید نصاب اور تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ اساتذہ پوری قوم کی قسمت بدل سکتے ہیں ،دنیا میں ترقی کرنے کا واحد راستہ عوام کو باشعور بنانا ہے جو اچھی ،معیاری اور دور حاضر کی جدیدتعلیم کے بغیر ممکن نہیں،دہشت گردی کامردانہ وار مقابلہ کرنے والےسری لنکا میں شرح تعلیم نوے فی صد سے زیادہ ہے۔ یہ75سالہ پروفیسر ڈاکٹر جون میو تھے جن کاشمار امریکہ میں میڈیا اسٹڈیز اور ماس کمیونیکیشن کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنےوالے اساتذہ میں ہوتاہے وہ کئی کتابیوں کے مصنف اور مختلف یونیورسٹیوں میں پروفیسر رہ چکے ہیں اب بھی علم بانٹنے میں مصروف ہیں،میری ان سے پہلی ملاقات 2011میں امریکہ کی معروف تعلیمی درس گاہ فلوریڈا اسٹیٹ یونی ورسٹی میں ہوئی جہاں میں اسی معروف ادارے کےڈاکٹر پروفیسر اسٹیو میک ڈاول کی دعوت پر بطور ریسریچ اسکالر موجود تھا۔ ڈاکٹر میو کا خیال تھا کہ امریکہ تعلیم اور اس شعبے کی ترقی کو ترجیح بناکر ہی دنیا پر حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکا ہے،دنیا کی ایک ہزار اعلیٰ ترین یونی ورسٹیوں میں ستر فی صد سے زیادہ امریکہ کی یونی ورسٹیاں ہی ہیں، میں وطن واپس لوٹا تو ملک میں پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت تھی،سوچاحکومت تک یہ خیالات پہنچاؤں گا، لیکن خوش قسمتی سے اس غیر اہم شعبے کے لئے حکومت وقت نےکوئی وفاقی وزیرہی مقرر نہیں کیاتھا،سو وہ میری تعلیمی گفتگو سےبچ گئے، جمہوریت کاتسلسل جاری ہے،عوام کی حکومت،عوام سے حکومت اور عوام کے لئے حکومت، آئین کے آرٹیکل پچیس اے کے تحت پانچ سال سے سولہ برس کے بچوں کو مفت تعلیم کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے،گوکہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کی ذمہ داری ہےتاہم اب بھی وفاق میں تعلیم کامستقل وفاقی وزیر نہیں،ایک صاحب کو داخلہ سمیت تعلیم اور کئی شعبوں کا انچارج وزیرمملکت بنایا ہوا ہے، حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی نظام بالخصوص نصاب کی تبدیلی وبہتری ،جدیدعلوم اور تجربے سے لیس اساتذہ کے ذریعے کئی دہائیوں سے امن وامان بالخصوص دہشت گردی کے شکارپاکستان کی قسمت سنوارنے اور حقیقی روشن چہرہ آشکارکرنے کی مقدور بھر عملی کوشش نہیں کی جارہی ،سچ یہ ہےکہ زمینی حقائق انتخابی منشور میں تعلیم کے لئےچار فی صد بجٹ مختص کرنے کے وعدوں کا منہ چڑاتے ہیں ،دکھ کی بات ہے کہ میڈیا پر تعلیم پر توجہ دلانے کی دہائیوں نے بھی حکمرانوں پرکوئی اثر نہیں کیا،جس ادارےکو نہیں چلانا چاہتے یا اس کی صلاحیت نہیں رکھتے اس کو نجکاری کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے، کمال یہ ہےکہ اب اس حکمت عملی کی زد میں تعلیم اور صحت کے شعبے بھی آگئے ہیں ،سندھ حکومت نے بنیادی ہیلتھ یونٹس کوخود چلانے کی بجائے نجی شعبے کے حوالے کردیاہے توغریب عوام سے حقیقی محبت کی دعویدار وفاقی حکومت نے سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر بناکر ان کو محض مثالی ذریعہ تعلیم بنانےکی بجائے اس کو نجی شعبے کے حوالے کردیاہے،درحقیقت بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کے ٹھیکے اربوں روپے کے عوض بااثر نجی اسکولوں کو دے دئیے گئے، نصاب ، استاد ،بچوں کی کردار سازی اور آئندہ یہ نظام کیسے چلے گا کی بظاہر کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ وفاقی دارالحکومت میں بڑھتی آبادی کے حساب سے ہر سال نئے اسکولوں کی تعمیر، جدید سائنٹفک لیبارٹریز و لائبریریز کا قیام کیسے ممکن ہوگا۔ صورت حال کس قدر ہولناک اور نازک ہے یہ ایک ادارے کی چشم کشا تازہ سروے رپورٹ میں واضح ہے جو حکومتی دعوؤں کی قلعی بھی کھول رہی ہے،وطن عزیز کے تقریباً ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے،تیس سے چالیس فی صد اسکول چار دیواری سےمحروم ہیں،بچوں سے زیادہ بچیوں کی تعداد زیادہ ہے،ملک میں اسی فی صد اسکول پرائمری سطح جبکہ صرف ایک فی صد ہائرسکینڈری اسکول ہیں،تیس فی صد اسکولزمیں صرف ایک استاد تعینات ہے،یقیناً خوش نما عمارتوں ،کلرفل کلاس رومز، اچھا وخوش گوار ماحول اچھی بات ہے،لیکن نصاب کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے،تعلیم دینے والے اور اس کو ریگولیٹ کرنے والا عملے کی استعداد کار مقصد میں شامل نہ ہو تو یہ سب خوش نما دکھاوے کس کام کے۔عوام پوچھنے پرمجبور ہیں کہ ہمسایہ ملک بھارت میں تعلیم پرجی ڈی پی کا تقریباً چار فی صد جہاں شہری علاقوں میں شرح خواندگی ستاسی اور دیہی علاقوں میں اکہتر فیصد ہے،بنگلہ دیش اپنے بجٹ کاگیارہ سے بارہ فی صد جبکہ سری لنکا اپنے بجٹ کا پانچ اعشاریہ چھ فی صد مقرر کرکے عالمی میلنیئم ڈویلپمنٹ گولز کے حصول کی دوڑ میں سب سےسرفہرست ہیں،تو ہمارے حکمراںاپنی آئینی ذمہ داری سے کب تک روگردانی کرتے رہیں گے،کب تک اپنی قوم کو جہالت کے اندھیروں میںبھٹکتاچھوڑکران مجبوروں کے انگوٹھوں کے نشانوں سے اپنے سروں پر حکمرانی کے تاج سجاتے رہیں گے،اپنے امیر نظام تعلیم کو غریبوں کی بدنصیبی میں اضافے کا سبب بناتے رہیں گے،اس ملک کو عظیم تر بنانے کی بجائے خود کو امیرتربنانے کی روایت کو اپنی آئندہ نسلوں میں منتقل کرتے رہیں گے، کوئی مانے نہ مانےحرف آخرہےکہ تمام امور کو بالائےطاق رکھ کر ہنگامی عملی اقدام سے تعلیمی نظام ٹھیک کریں اب اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
تازہ ترین