• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

حکومت نے بلا تفریق کڑے احتساب کی منصوبہ بندی کرلی

بیانات نہیں بلکہ واقعات اور حالات بتارہے ہیں کہ ملک میں پہلی مرتبہ کڑے احتساب کا عمل شروع ہوچکا ہے اور اس عمل میں جو نام سامنے اور جو گرفت میں آرہے ہیں وہی اس بات کی تصدیق ہیں کہ ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ احتساب کا دائرہ کار ملک سے باہر تک پھیلا دیا گیا ہے بالخصوص ماضی میں بااختیار رہنے والی سابق حکومتی شخصیات کے گرد جس انداز سے گھیرا تنگ ہوچکا ہے اُن کی سراسمیگی کے واقعات بھی اس صورتحال کی غمازی کررہے ہیں پھر ان شخصیات کو خود بھی اندازہ، بلکہ پوری طرح ادراک ہے کہ انہوں نے جس انداز سے حکومتی اختیارات کو ذاتی منفعت کے لیے استعمال کیا اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جو غیر قانونی، غیر آئینی حتی کہ غیر اخلاقی حربے استعمال کیے وہ کچھ تو منظر عام پر آچکے ہیں اور کچھ آنے والے ہیں۔ درحقیقت ان شخصیات کے بارے میں تحقیقات کا عمل ریاستی اداروں نے کئی سال قبل شروع کردیا تھا جس کے حیران کن اور ناقابل تردید شواہد ان اداروں کے پاس موجود ہیں اور پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ ان شواہد کی فراہمی میں خود ان شخصیات کے رفقاء اور جنہیں وہ اپنا انتہائی قابل اعتماد اور رازداں سمجھتے تھے نے وعدہ معاف گواہ کی حیثیت سے اہم کردار ادا کیا ہے چاہے وہ عزیر بلوچ ہو، ایان علی ہو، پنجاب کے اہم بیوروکریٹس یا پھر اس وقت بھی حکومت میں شامل بعض شخصیات ہوں۔ تاہم اپوزیشن کا ہی نہیں بلکہ بعض غیر سیاسی طبقات کا بھی یہ گلہ شکوہ ہے کہ کیا اس وقت کی حکمران پارٹی میں تمام لوگ دودھ کے دُھلے ہوئے ہیں کیا یہ لوگ کسی اور معاشرے کا حصہ ہیں اور کیا ان کی شخصیت اتنی شفاف ہے کہ اُن کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ ہی نہیں ہے جو لوگ ملک سے کرپشن ختم کرنے اور احتساب کےبارے میں انقلاب آفریں سلوگنز پیش کررہے ہیں اُنہیں حکومت کے ماضی اور حکومت میں شامل ایسے لوگ کیوں نہیں نظر آرہے۔ لیکن شاید ایسا نہیں ہے اس حوالے سے حکومت کے وفاقی وزیراعظم سواتی کو اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں اعلیٰ عدالتوں کے چکر لگانے پڑرہے ہیں اور اُن کے خلاف تحقیقات کا دائرہ کار وسیع ہوچکا ہے اور مالی معاملات اور اثاثوں کی چھان بین کے لیے جے ۔ آئی۔ ٹی بھی بن گئی ہےاور اس کے ساتھ ساتھ صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ موجودہ وفاقی وزیردفاع اور وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی پرویز خٹک کے بارے میں بھی تحقیقات شروع ہوگئی ہیں جو صوبہ کے ۔پی ۔کے میں اُن معاملات کے حوالے سے ہیں جب پرویز خٹک وہاں پر وزیراعلیٰ تھے۔ لیکن یہ ابتدا ہے، بعض واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ بالخصوص پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ابھی پُراعتماد استحکام حاصل نہیں ہے اس لیے پنجاب میں فی الوقت ’’ایکشن‘‘ نہیں کیا جارہا ہے لیکن جو لوگ خواہ وہ حکومت میں شامل ہیں یا حکومت سے باہر اُن کے خلاف کاروائی لازماً ہونی ہے۔ نیب کے 65 ہائی پروفائل کیسز کی لسٹ گزشتہ دنوں روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہوچکی ہے جس میں کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں کے اُن راہنماؤں کے نام شامل ہیں جن کے خلاف نیب تحقیقات کررہا ہے اور ان میں وہ سرکاری حکام بھی شامل ہیں جنہیں اعلیٰ شخصیات کی سرپرستی شامل تھی۔سابق وزیراعظم میاں نواز شریف گزشتہ دنوں احتساب عدالت میں پیشی کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس بھی آئے، جہاں اُن دنوں قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں اُن کی آمد کا مقصد برادرِ خورد اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف سمیت دیگر راہنماؤں سے بعض اُمور پر مشاورت کرنا تھی۔ یہ مشاورتی نشستیں اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں ہوئیں۔ جہاں تقریباً دو دھائی قبل خود میاں نواز شریف بطور اپوزیشن لیڈر بیٹھا کرتے تھے اس مشاورتی عمل میں مسلم لیگی راہنماؤں کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بعض راہنما بھی موجود تھے جن میں سید خورشید شاہ بھی شامل تھے۔ اطلاعات کے مطابق اس مشاورت میں دیگر اُمور کے علاوہ اس بات پر بھی اکثریت کا اتفاق رائے موجود تھا کہ فی الحال نہ تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے اور نہ ہی کوئی تحریک چلائی جائے۔ حکومت کے غلط فیصلوں اور اقدامات کی نشاندہی ضرور کی جائے اور اُنہیں روکنے کے لیے اسمبلی کے ایوانوں میں جمہوری اور آئینی طریقہ کار اختیار کیا جائے لیکن جارحانہ اندازاختیار کرنے اور تحریک چلانے سے گریز کیا جائے بالخصوص اگر حکومت اپوزیشن کے خلاف انتقامی کاروائیاں کرتی ہے ٱتو اُنہیں روکنے کے لیے بھی پارلیمانی ایوانوں میں بھرپور احتجاج اور قانونی و آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے پوری قوم کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ وفاقی حکومت جس طرح نیب کی ترجمان بنی ہوئی ہے اور جس انداز سے آئے دن حکومتی ترجمان ذرائع ابلاغ میں اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے راہنماؤں پر الزامات عائد کرتے ہیں اُن سے حکومتی عزائم کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے اس لیے بقول اُن راہنماؤں کے ان اقدامات سے حکومت کو باز رکھنے سے کچھ نہ کچھ تو’’ پیش بندی‘‘ بہرحال کرنا ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ان ارکان کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو وقت دینے کے سب سے بڑے مخالف جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان بھی ہیں جو اس مقصد کے لیے عملی طور پر تنہا ہی جلسے اور جلوسوں کے لیے تحریک چلا رہے ہیں کراچی اور پشاور کے بعد اب انہوں نے 15نومبر کو لاہور میں ملین مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے اُن کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں نے حالیہ جنرل الیکشن کو جعلی قرار دیتے ہوئے اسمبلیوں اور اسمبلی سے باہر احتجاج کیا تھا اگر ہم آج حکومت کو وقت دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ان جعلی الیکشنز کو تسلیم کررہے ہیں ۔ انہوں نے کراچی کے اجتماع میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ’’جیل بھرو‘‘ تحریک شروع کرنے کا بھی اعلان کیا اور اب لاہور میںبھی اسی نوعیت کے اعلانات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے علاوہ وہ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی اور اس کی بیرون ملک روانگی کے حوالے سے بھی حکومت پر سخت تنقید کررہے ہیں ۔ لیکن ان کے اس طرز عمل کو عوامی اور سیاسی سطح پر قابل ِ ذکر پذیرائی حاصل نہیں ہورہی اور انہوں نے کچھ عرصہ قبل مذہبی جماعتوں کو یکجا کرکے متحدہ مجلس عمل کو فعال کرنے کی جو کوشش کی تھی اس میں بھی توقع کے مطابق اُنہیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اُن کے مخالفین سمیت عوامی سطح پر ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ چونکہ مولانا فضل الرحمان ایک طویل مدت بعد نہ تو قومی اسمبلی تک رسائی حاصل کرسکے ہیں اور نہ ہی کسی بھی حوالے سے حکومت کا حصہ ہیں پھر اُن کی جماعت کے بعض ارکان کے بھی بھی احتساب کے عمل میں شامل کیے جانے کی اطلاعات ہیں اس لیے سرکاری مراعات اور ثمرات سے محروم ہونے کے باعث مولانا صاحب کا یہ جارحانہ طرزِ عمل ایک فطری سی بات ہے اور مولانا صاحب کے آخری حد تک جانے کے اعلانات اُن کے احساس محرومی اور فرسٹیشن کا نتیجہ ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں ہنگامہ آرائی ایک معمول کا طرزِ عمل بن جانے پر اب وزیراعظم عمران خان بھی اس صورتحال پر قدرے متفکر نظر آتے ہیں کیونکہ اُنہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اپوزیشن نے اب اپنے تمام مطالبات منوانے اور احتجاج کے لیے قومی اسمبلی کا ایوان ہی منتخب کیا ہے اور یہ حکمت عملی بھی وضع کی ہے کہ قومی اسمبلی کی کاروائی کو کسی صورت بھی حکومتی حق میں نہیں جانے دیں گے پھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شاید ہی کوئی دن ایسا گذرا ہو جس میں بدمزگی، کورم کی نشاندہی یا پھر احتجاج نہ ہوا ہواور اپوزیشن نے اپنے طرزِ عمل سے یہ پیغام نہ دیا ہو کہ ایوان اُن کی مرضی سے چلے گا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر جو اس سے قبل خیبر پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر تھے اتنا اہم ایوان جہاں دو سابق وزیراعظم، ایک سابق صدر اور دو اپوزیشن لیڈرز کے علاوہ تین سابق اسپیکرز بھی موجود ہوں اور ایسے ارکان جو اس ایوان میں سات سات مرتبہ آچکے ہیں قومی اسمبلی کے قواعد وضوابط جنہیں حفظ ہوں، ایسے جہاندیدہ ، عمررسیدہ اور تجربہ کار ارکان کے سامنے بسا اوقات تو قدرے نوآموز لگتے ہیں لیکن اسد قیصر کی غیر جانبداری کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری جو پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں آئے ہیں اُن کی موجودگی میں اکثر وبیشتر ’’ایوان آرڈر‘‘میں نہیں رہتا۔ بہرحال اب وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو فوری طور پر ایک ’’اخلاقی کمیٹی‘‘ کے قیام کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارکان شامل ہوں گے۔ کمیٹی کے قیام کا بنیادی مقصد ایوان کی کاروائی میں شائستگی لائی جائے، ارکان ایک دوسرے کا احترام کریں، نازیبا زبان اور ذاتیات پر حملے کا سلسلہ قطعی طور پر بند ہوسکے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس نوعیت کی کمیٹیوں کا قیام پہلے بھی عمل میں لایا جاچکا ہے لیکن یہ کمیٹیاں قطعی طور پر غیر مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین