• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن میں ادھر ہاکر نے ’جنگ ‘‘ اخبار گھر میں پھینکا، ادھر ہم نے لپک کر جلدی سے ٹارزن کی کہانی پڑھ ڈالی۔ تصویری کہانی ہمیں آج تک یاد ہے اور منکو کا کردار بھی! تصویری کہانیاں یا کامک اسٹریپ ہر اخبار یا میگزین کا حصہ ہوتی تھیں۔ آج بھی کامک کتابیں بچوں کو بہت پسند آتی ہیں اور ان سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔

کامکس کاآغاز شاید زمانہ قدیم سے ہوگیا تھا، جب انسان نے لکھنا سیکھاتھا اور وہ تصویروں کے ذریعے داستان گوئی کرتاتھا۔ پھر زمانہ ترقی کرتا گیا اور ہمارے پاس کامک کتابوں کا ڈھیر لگ گیا۔ آج آپ کو جتنے بھی سپر ہیروزجیسے سپر مین، بیٹ مین، ٹارزن وغیرہ تھری ڈی فلموںمیں حقیقی رُوپ میں نظر آتے ہیں، یہ سب پہلے کامک ہی تھے ، آرچی ہو،ٹوم اینڈ جیری ہو یا جنگل بُک، تصویری شکل میں ہی دنیا کے سامنے آئے، بعد میں متحرک ہو کر اسکرین پر دوڑتے نظر آئے۔

کامکس کیا ہے ؟

کامکس داستان گوئی کا ایک ایسا ذریعہ ہے، جس میں صفحات پر سلسلہ وار یا مُتاخر تصاویر کے ذریعے خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات اِن تصاویر کے ساتھ ساتھ تحریری بیانیوں اور دیگر بصری آلات کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ کامکس اپنی بنیادی شکل میں دیگر تصاویر کا پہلو با پہلو مجموعہ ہوتے ہیں۔ اِن میں استعمال ہونے والے تحریری آلات میںا سپیچ ببل، تعارفی الفاظ اور بیانیے شامل ہوتے ہیں۔ کامکس میں اکثر کارٹون اور تصویری خاکوں کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن فُومیٹی کامکس کی ایک ایسی قسم ہے، جس میں فوٹو گرافس کو تصویروں کی مانند استعمال کیا جاتا ہے۔

کامکس کی تعریف

کامکس کی تاریخ کافی پرانی ہے، مختلف ممالک اور ثقافتوں میں انھیں مختلف طرح سے پزیرائی ملی۔ کچھ ماہرین کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ لاسکو کی غارنگاری بھی کامکس کی ہی ایک قدیم قسم ہے۔لاسکو کے غاروں میں نقاشی اِن کو بنانے والے قدیم انسانوں کے شکاری کارناموں کا ایک بیانیہ ہے، چُنانچہ یہ ایک طرح سے کامک کی مانند ہی ہے کیونکہ کامکس بھی کسی واقعے کے تصویری بیانیے ہی ہوتے ہیں۔ 20ویں صدی میں کامکس کو مغربی مُمالک جیسے امریکا اور یورپ میںخصوصاً فرانس اور بیلجئم جبکہ مشرقی ممالک میں جاپان میں بے حد پزیرائی ملی۔

کامکس کی جدید دنیا

اگر کامکس کی جدید شکل کی تاریخ پر توجہ مرکوز کریں تو یورپی کامکس کی بنیاد رُوڈولف ٹاپفر نے اپنے 1830ء کی دہائی کے کارٹون ’اسٹرِپ‘ سے رکھی۔ البتہ، کامکس کے اِس وسیلے کو 1930ء کی دہائی میں جا کر خوب پزیرائی ملی، جب دی ایڈونچرز آف ٹِنٹِن شائع ہوا۔ اگر امریکی کامکس کی بات کی جائے تو وہ 20ویں صدی کے ابتدائی مراحل میں عوامی ذرائع ابلاغ کا حصّہ بنیں۔1930ء کی دہائی میں رسالے نُما کامک بکس شائع ہونے لگیں اور سوپر مین کے کردار پر مبنی پہلا سوپر ہیرو کامک 1938ء میں شائع ہوا۔ یہ تو کُچھ نہیں، جاپانی کامکس (جنہیں مانگا بھی کہا جاتا ہے)، اپنی تاریخ کا آغاز 12ویں صدی میں پیش کرتے ہیں۔ البتہ امریکی کامکس کی طرح، مانگا بھی 20ویں صدی میں ہی جا کر مقبول ٹھہرا۔

انگریزی زبان میں کامکس دراصل مزاحیہ تصویری خاکوں کو کہا جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب اِس لفظ کا استعمال سنجیدہ تصویری بیانیوں کے لیے بھی کیا جانے لگا ہے۔ ابتدائی طور پر لوگ کامکس کو ایک سنجیدہ فن نہیں سمجھتے تھے لیکن 20ویں صدی میں کامکس مقبولیت اختیار کرتے چلے گئے اور لوگوں نے اِنہیں خوب سراہا۔

سبق آموز کامکس

بچے چونکہ رنگ برنگی تصویروں اور تصویری قاعدوں کو بہت پسند کرتے ہیں کیونکہ ان میںپڑھنا کم پڑتا ہے اور زیادہ تر بات ایکشن یا تصویر سے سمجھا دی جاتی ہے ۔ بچے اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اسکول کی نصابی کتب کے علاوہ بھی کئی پبلشر سبق آموز واقعات کو تصویری شکل میں شائع کرتے ہیں ، ان میں صحت مند عادات ہوں یا تربیتی اسباق، حفاظتی ٹیکوں کی افادیت ہو یا ہاتھ دھونے کی تلقین ، سب کچھ بچے غیر محسوس طریقے سے سیکھتے چلے جاتے ہیں۔

والدین کوچاہئے کہ بچوں کو ایسی سبق آموز کتابیں فراہم کریں، جس میں ان کوا چھا انسان بننے کا سبق ملتا ہو۔ چھوٹے بچوں کو والدین خود بھی پڑھائیں اور تصویروں کے ذریعے اچھے برے کی تمیز سکھائیں اور انہیں اچھا انسان بنانے میں اپنی ذمہ داری کو پورا کریں۔ 

تازہ ترین