• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والد کو دوبارہ خاوند جاوید اختر کی صورت میں دریافت کیا ، شبانہ اعظمی

لاہور( نمائندہ جنگ )دوستی پیار محبت کی مٹی میں گندھا تین روزہ فیض احمد فیض انٹرنیشنل فیسٹول الحمرا میں شروع ہو گیا۔ادب ،شعر وسخن کے دلدادہ افراد کی کثیر تعداد امڈ آئی ۔پہلے روز عالمی شہرت یافتہ شاعر جاوید اختر اور انکی اہلیہ اداکارہ شبانہ اعظمی نے اپنی گفتگو سے حاضرین کے دل موہ لئے۔پہلے سیشن میں شبانہ اعظمی اور سلیمہ ہاشمی نے عالمی شہرت یافتہ شعراء کیفی اعظمی اور فیض احمد فیض کی یادوں کو تازہ کیا۔ شبانہ اعظمی نے کہا کہ کیفی آخری وقت میںمعاشرے کے سدھار میں جت گئے۔والد کو دوبارہ اپنے خاوند جاوید اختر کی صورت میںدریافت کیا کیونکہ دونوں میں بہت سی خصوصیات مشترک تھیں۔کیفی کی کل پونجی 18قلم اور کمیونسٹ پارٹی کا کارڈ تھا۔ انہیں یقین کامل تھا کہ جس تبدیلی کیلئے بھی جدوجہد کریں بھرپور یقین سے کریں لیکن اتنی گنجائش چھوڑدیں کہ شاید وہ تبدیلی آپکی زندگی میں نہ آئے ،لہٰذا تبدیلی کی سست رفتارسے ہرگز مایوس نہ ہوں۔انہوںنے کہا کہ والد کو ہمیشہ کرتا شلوار میں دیکھ کر بڑی تکلیف ہوتی تھی ،سوچتی تھی کاش وہ بھی پینٹ شرٹ پہنتے اور دفتر جایا کرتے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ایک عرصہ تک شاعری پلے نہ پڑتی تھی ۔سکول میں ورڈز ورتھ کو پڑھا تو سمجھ آئی کہ شاعر ہونا بڑی بات ہے۔شاعر کی بیٹی ، شاعر کی بیوی اور شاعر کی بہو ہونے پر شاعر ہونے کا متعدد بار سوال کیا جاتا ہے جس پر ہنس کر جواب دیتی ہوں کہ میں شعر تو نہیں کہتی لیکن شاعری کیلئے مہمیز کا کام کرتی ہوں ۔شبانہ اعظمی نے نظم عورت سنائی اور آخر میں فیض احمد فیض کی نظم ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘ ترنم سے پڑھی ۔حاضرین انکی سریلی آواز سن کر حیران رہ گئے۔شبانہ اعظمی نے کہا کہ 7 سال بعد لاہور آئی ہوں ،وعدہ کرتی ہوں کہ اگلے سال دوبارہ آئوں گی۔سلیمہ ہاشمی نے کہاکہ فیض احمد فیض اور کیفی اعظمی میں ایک قدر مزید مشترک تھی کہ دونوں کا طرز تحریر اوربیانیہ بے خوف اور عدم مساوات کے خلاف جنگ پر مبنی تھا۔ ایک دفعہ ایک تقریب میں ایک نوجوان نے پوچھا کہ انقلاب کب آئیگاتو فیض نے ہنس کر کہا کہ اتنی بھی جلدی کیا ہے ؟ جس پر حاضرین ہنس دئیے۔انہوںنے کہا کہ فیض احمد فیض کو ٹیسٹ کرکٹ میں سنچری بنانے اور فلمیں بنانے کا بہت شوق تھا ، فلمیں بنانے کیلئے صنعتکار دوستوںکو آمادہ بھی کیا ، ایک آدھ فلم بھی بنائی جو ڈبوں میں ہی بند رہی۔جب فیض جیل جایا کرتے تو اماں ایلس فیض چھپایا نہیں کرتی تھیں بلکہ بتایا کرتی تھیں کہ سچ بولنے پر جیل جانا پڑسکتا ہے ۔ہم حیران ہوتے تھے کہ سچ بولنا تو اچھی بات ہے پھر اس پر جیل کیوں ہوتی ہے ؟ اس کی سمجھ ہمیں کئی سال تک نہ آئی۔ایک دفعہ فیض جیل میں تھے اور میں انکی کتاب ایک تقریب کے دوران لوگوں میں بانٹ رہی تھی۔لوگوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بہت متاثر ہوئی اور تب مجھے لگا کہ ابا جیل کے علاوہ بھی کچھ کرتے تھے۔ محبت کے والہانہ اظہار اور بیانیہ بارے فیض اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے عورتوں کی محبت نے بگاڑا ہے جنھوں نے مجھے انتہائی شفقت سے پالا ہے۔ایک گھنٹہ پر مشتمل سیشن میںدونوں شعرا کی بزلہ سنجی اور حس مزاح پر مشتمل جملوں اور واقعات زندگی پر حاضرین محظوظ ہوتے رہے اورہال قہقہوں اور تالیوں سے گونجتا رہا ۔اس موقع پر جاوید اختر نے اپنی مشہور زمانہ نظمیں ’’نیا حکم نامہ ‘‘اور ’’وقت ‘‘سنا کر خوب داد سمیٹی۔ انہوںنے کہا کہ جہاں سے محبت ملے وہاں کوئی دوبارہ کیوں نہ جانا چاہے گا۔ آخر میںمرحوم شاعر کیفی کی آواز میں نظم ’’نئی زمین نیا آسمان نہیں ملتا ‘‘ سنوائی گئی۔میزبانی کے فرائض عدیل ہاشمی اور میرا ہاشمی نے ادا کئے۔
تازہ ترین