• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظرنامہ ،ایوان صدر کی فعالیت،عارف علوی تحفظات دور کرینگے

اسلام آباد(طاہر خلیل) ایوان صدر کی فعالیت ،صدر عارف علوی سابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی اور نیشنل پارٹی کے سربراہ میرحاصل بزنجو سے مل کر ان کے تحفظات دور کریں گے میاں رضا ربانی اورمیر حاصل بزنجو نے گزشتہ ہفتے صدر عارف علوی کی جانب سے ایوان صدر میں گورنر کانفرنس کے انعقاد اور گورنرز کو دئیے گئے اہداف پر سوالات اٹھائے تھے، ان کا موقف تھا کہ آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنے کا پابند ہےاور ازخود کوئی احکامات جاری نہیں کرسکتا، میاں رضا ربانی کی ساری زندگی آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں گزری۔ یوں تو مملکت کے تمام احکامات صدر مملکت کے نام پر جاری ہوتے ہیں لیکن آئین نے صدر مملکت کا عہدہ محض رسمی نوعیت کا متعین کیا ہے، یہی سوال جب صدر عارف علوی سے سینئر صحافیوں کی ایک حالیہ ملاقات میں اٹھایا گیا تو صدر کا جواب تھا کہ یہ میری حکومت کی ایڈوائس ہے کہ میں غیر سیاسی ایشوز پر کام کروں، صدر علوی نے استفہامیہ لہجےمیں سوال کیا تھا کہ اگر میں یہ بات کروں کہ لوگ پانی کی حفاظت کریں، عورت کووراثت کاحق دیں، جیلوں میں بند ایسے قیدی جو سزا مکمل کرچکے لیکن جرمانے کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے اب تک جیلوں میں قید ہیں ان کی رہائی کے اسباب پیدا کئے جائیں تو کیا یہ سب غیر آئینی ہوگا، آئین میں کہاں لکھا کہ صدر گونگا بہرہ بنا رہے گا؟ صدر ڈاکٹر علوی کے سوالات اپنی جگہ اہم لیکن میاں رضار بانی کے موقف کو صرف نظر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ آئین کی عملداری کا معاملہ ہے۔ میاں رضا ربانی کا یہ مطالبہ قابل توجہ ہے کہ اگر وزیراعظم کابینہ یا حکومت نے ایوان صدر کی فعالیت کیلئے کوئی ایڈوائس جاری کی ہے تو اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنا چاہیے۔ یادش بخیر! یہ نومبر 1997 کا واقعہ ہے جب میاں نواز شریف کے عہد وزارت عظمیٰ میں صدر اور وزیراعظم کے تعلقات خراب ہوئے۔1996 میں اقتدار میں آتے ہی میاں نوازشریف نے صدر سے اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم کردیاتھا، آئین سے آرٹیکل 58(ٹو) (بی) کے خاتمے کے بعد اس وقت ایوان صدر سازشوں کا مرکز بن گیا تھا اور خواجہ طارق رحیم مستقل ایوان صدر میں براجمان تھے۔ ایوان صدرکوسازشوں کا اڈہ ختم کرنے کے لئے وزیراعظم نے ایڈوائس جاری کی تھی کہ صدر لغاری اپنے وزیٹرز کی فہرست وزیراعظم کو بھیجیں گے اوروزیراعظم کی منظوری کے بغیر صدرکسی وزیٹر سے ملاقات نہیں کریں گے۔ دوسرا کام اس وقت یہ بھی ہوا تھا کہ حکومت نے ایوان صدر کے بجٹ میں تخفیف کردی یہاں تک کہ عملے کی تعداد 50 فیصد کم کردی تھی۔محولہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایوان صدر اور پی ایم ہائوس کے مابین جب تعلقات کا ر بہتر نہ ہوں تو پھر آئین کے تحت صدر کا کردار قطعی رسمی رہ جاتا ہے۔ آج صورتحال 97-1996 سے برعکس ہے۔ ایوان صدر کا مکین آج کی حکمران پارٹی کا ماضی میں سیکرٹری جنرل رہا ہے ماضی کے مقابلے میں آج صدر اور وزیراعظم میں مکمل ہم آہنگی ہے۔

تازہ ترین