• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہڈسن یارڈز‘‘ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ

مین ہٹن میں امریکا کی تاریخ کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ جزیرہ مین ہٹن کی 28ویں اسٹریٹ سے 43ویں اسٹریٹ کے درمیان زیرِتعمیر اس وسیع و عریض اور شاندار تعمیراتی منصوبے کا نام Hudson Yardsہے، جس پر لاگت کا تخمینہ اندازاً 25ارب امریکی ڈالر (33ہزار ارب روپے سے زائد)ہے۔

یہ منصوبہ، حالیہ تاریخ میں ٹیکنالوجی کے لحاظ سے سب سے جدید ہے، جسے City Within a City بھی کہا جارہا ہے۔ اس منصوبے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسے ریل یارڈ کے اوپر بنائے گئے پلیٹ فارم پر تعمیر کیا جارہا ہے، جس کے نیچے سے ٹرینیں حسبِ معمول گزرا کریں گی۔ ماہرین اسے سول انجینئرنگ کی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

تقریباً 2کروڑ مربع فٹ رقبہ پر مشتمل اس منصوبے میں دفاتر، رہائشی اپارٹمنٹس اور کمرشل سینٹرز شامل ہیں۔ ایک پرفارمنگ آرٹس سینٹر اور پبلک اسکول بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔ سول انجینئرنگ کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے پلیٹ فارمز کے ستونوں کو اتنا مضبوط بنایا گیا ہے کہ ان پر ایک پورا شہر کھڑا ہوگیا ہے، جس میں امریکا کی چند بلند ترین فلک بوس عمارتیں بھی شامل ہیں۔ اس منصوبے کے ایک ایک کالم کا وزن 90ٹن ہے، اس سے پہلے کسی بھی تعمیراتی منصوبے میں اس قدر بھاری کالموں کا استعمال نہیں کیا گیا۔ زمین کے اندر 30سے 100فٹ گہرائی تک ڈالے گئے یہ کالم، چار سے پانچ فٹ قطر کے بڑے اسٹیل ٹیوب پر مشتمل ہیں، جن میں کنکریٹ بھراگیا ہے۔ زمین سے اوپر یہ ٹریک لیول تک آتے ہیں۔

اس منصوبے کی سب سے بلند عمارت، 30ہڈسن یارڈز کی اونچائی 1,296فٹ (395میٹر) ہے۔ اس ٹاور میں مجموعی طور پر دنیا کے بڑے کاروباری اداروں کے لیے 26لاکھ مربع فٹ جگہ دستیاب ہوگی، تاہم یہ اس کی خاص بات نہیں۔ اس ٹاور کی خاص بات اس کا 100واں فلور ہے، جہاں ایک خصوصی ڈیک تعمیر کیا جارہا ہے۔ یہ ڈیک مغربی نصف کرہ ارض (Western Hemisphere)کا بلند ترین آؤٹ ڈور آبزرویشن ڈیک ہوگا، جہاں سے مین ہٹن اور نیویارک سٹی کے خوبصورت نظارے کیے جاسکیں گے۔ ڈیک سطح زمین سے 1,100فٹ (335میٹر)بلند اور ٹاور کی بیرونی دیوار سے 65فٹ (20میٹر) باہر نکلتا ہوا ہوگا۔ اس منزل پر ایک برطانوی ہوٹلنگ گروپ بار، ریسٹورنٹ اور ایونٹ اسپیس بنائے گا۔ اس ڈیک پر کھلی ہوا میں آنے والے افراد بادلوں کے درمیان ہوں گے اور انھیں اپنے ہاتھوں سے چھو سکیں گے۔اسٹیل اور شیشے پر مشتمل اس ڈیک کو اٹلی میں تیار کیا گیا ہے، جنھیں ٹکڑوں میں بحری جہاز کے ذریعے نیویارک لایا گیا ہے۔ ان ٹکڑوں کو ٹاور کے جنوب مشرق میں نصب کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر ڈیک کا وزن 7لاکھ 65ہزار پاؤنڈ ہوگا۔ڈیک کو خارجی اطراف سے شیشے کی 9فٹ اونچی دیوار دی جائے گی۔ منصوبے میں توانائی کے استعمال کا تعین کرنے کے لیے ایڈوانس ایئرکوالٹی کنٹرول اور Heat Mappingجیسے فیچرز شامل کیے گئے ہیں۔

ہڈسن یارڈز منصوبے سے قبل، مین ہٹن جزیرے کا یہ حصہ پسماندہ سمجھا جاتا تھا۔ مین ہٹن کے اس علاقے کو ترقی دینے کا مجوزہ منصوبہ 50ء کی دہائی سے زیرِ غور تھا۔ اس وقت نیویارک میں تعمیرات سازی کی صنعت کا بادشاہ سمجھے جانے والے ولیم زیکینڈارف نے اس جگہ ’کولڈ وار‘ کے زمانے میں دنیا کی بلند ترین عمارت تعمیر کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ چھ عشروں بعد 2010ء میں یہ منصوبہ بالآخر دو تعمیراتی کمپنیوں ’رِیلیٹڈ کمپنیز‘ اور ’آکسفورڈ پراپرٹیز گروپ‘ کے پاس آگیا۔ دونوں بڑے تعمیراتی گروپوں نے مل کر نیویارک میں Rockefeller Centerکے بعد سب سے بڑے تعمیراتی منصوبے کا آغاز کیا، جو اب 25ارب ڈالر مالیت کے ساتھ، امریکا کی تاریخ کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ بن چکا ہے۔ ہڈسن یارڈز کا صرف ایک مال 10لاکھ مربع فٹ رقبہ پر محیط ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ’میوزیم آف ماڈرن آرٹ‘ اور ’وہائٹنی میوزیم آف امریکن آرٹ‘ کو بھی ملا دیا جائے تو یہ دونوں مل کر بھی اس مال کے حجم کا مقابلہ نہیں کرپائیں گے۔

ماہرین تعمیرات اسے امریکا کانیا ورلڈ ٹریڈ سینٹر قرار دے رہے ہیں۔ اس تقابل سے ریلیٹڈ کمپنیز کے پروجیکٹ ڈویلپر جے کراس متفق نظر آتے ہیں،’’ 11/9سے قبل تک جڑواں ٹاور، نیویارک اور امریکا کی معاشی بالادستی کی علامت کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔ 11ستمبر کے اندوہناک حملوں کے بعد وہی جڑواں ٹاورز امریکا کے لیے غم کی نشانی بن گئے۔ لیکن ہمارا مقصدایک نیا شہری ماحول تخلیق کرنا ہے، جو اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھا، ایک ایسا ماحول جو 21ویں صدی کی ضروریات کو پورا کرسکے‘‘۔

جے کراس، ہڈسن یارڈز میں ایک ایسا ماحولیاتی نظام تخلیق کرنا چاہتے ہیں، جہاں دن کے اختتام پرلوگ اپنے دفاتر کو کھلا چھوڑ دیں، اسکوائر کے پاس سے پیدل چلتے ہوئے اپنے اپارٹمنٹ میں پہنچ جائیں، ایکسرسائز کے لیے SoulCycleکی رائیڈ لیں اور پھر رات کے کھانے پردوستوں سے ملنے کے لیے اینڈریس ریسٹورنٹ پر اکٹھے ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ انھیں اپنا علاقہ چھوڑنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔

امریکا میںہر ماہ ایک کے بعد ایک شدید سمندری طوفان آرہے ہیں۔ مین ہٹن میں سینڈی نامی بڑا سمندری طوفان 2012میں آیا تھا، جس نے نیویارک میں شدید تباہی پھیلائی تھی۔ سینڈی کی تباہیوں کی روشنی میں مستقبل میں آنے والے شدید سمندری طوفانوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے نئی تعمیرات میںان باتوں کا خیال رکھا جارہا ہے۔ جے کراس کہتے ہیں،’ ’ سینڈی کے بعد ہم نے اپنا لائحہ عمل بدلا ہے۔ ہمارا گراؤنڈ فلور سطح سمندر سے 40فٹ اونچا ہے، جو سمندری طوفانوں کی 500سالہ تاریخ سے بھی بلند ہے۔ اس لیے اس بات کے امکانات انتہائی روشن ہیں کہ مستقبل میں کسی بھی سمندری طوفان کا پانی ہمارے گراؤنڈفلو ر کو چھو نہیں سکے گا‘‘۔

تازہ ترین