• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

minhajur.rab@janggroup.com.pk

عدلیہ کی ہدایت پہ کراچی میں گزشتہ ہفتے سے شروع ہونے والی اینٹی انکروچمنٹ کارروائی یقیناً ایک احسن قدم ہے۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ وقتی نہ ہو۔ آج قابض دوکانداروں اور پتھارے داروں کو شہر کے اہم علاقے سے ہٹایاجارہا ہے۔ غیرقانونی تعمیرات کو توڑنے کے ساتھ ساتھ اس کے ملبے کو بھی وہاں سے ہٹایا جائے تاکہ راستہ صاف ہوتا جائے۔ کیونکہ اس سے بیشتر بھی کئی علاقوںمیں سڑکوں پہ تعمیرغیرقانونی دوکانوں کو توڑ کرملبہ وہیں چھوڑدیا گیا تھا۔ یوں ملبہ پڑا رہنے سے راستے چوڑے نہ ہوسکے اور کئی سال گزرنے کے بعد ان پہ دوبارہ تعمیر کردی گئی۔ اسی طرح نالوں کی صفائی کی جاتی ہے اور کچرہ اور گندگی کناروں پہ چھوڑ دی جاتی ہے۔ کئی دنوں تک وہ کچرا وہیں پڑارہتا ہے پھر دوبارہ نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے اور یوں مسائل اپنی جگہ رہتے ہیں۔ اس کی سب سے واضح مثال پٹیل پاڑہ کی ہے۔ جہاں اس وقت کے ناظم کراچی نے غیرقانونی دوکانوں کو توڑ کر سڑک کشادہ کی لیکن پارکنگ اور ہوٹلوں کی وجہ سے سڑک گھیرنے کے خلاف کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا۔ نتیجتاً آج بھی اس سڑک پہ ٹریفک کا بہاؤ بہت سست رہتا ہے کیونکہ دو تہائی سڑک پہ پارکنگ ،ہوٹل یا دوکانداروں کا سامان پڑا رہتا ہے۔ اس لیے بامشکل ایک وقت میں صرف دو گاڑیاں ہی گزرسکتی ہیں۔ یہی حال کراچی کے تقریباً تمام کمرشل علاقوں کا ہے۔ چاہے وہاں دوکانیں ہوں ، پتھاریدار ہوں، اسکولز ہوں، شادی ہالزیا سینما گھر پارکنگ کا مناسب نظام نہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک کے بہاؤ میں مشکلات ہوتی ہیں۔ اب جبکہ عدلیہ کی ہدایت پہ وہاں صفائی کا کام جاری ہے تو کوشش یہ کی جائے کہ دوبارہ غیرقانونی تعمیرات نہ ہوں۔ سڑکوں کے Right of way (ROW)کومحفوظ رکھا جائے۔ اس کی باقاعدہ نگرانی ہونی چاہیئے۔ جس کے لیے اینٹی انکروچمنٹ کے ادارے کو فعال اورمستعد کرنا اوراس کوہر قسم کے اثرورسوخ سے باہر نکالنا ہوگا۔ تب ہی یہ ممکن ہے ۔ ورنہ پھر کچھ عرصے بعد تعمیرات شروع ہوجائیں گی۔ لیاری ایکسپریس وے جو ناجائز قابضین کی وجہ سے طوالت کا شکار ہواتھا۔ آج جاکردیکھیں اس کے ROW پہ پھر سے قابضین آچکے ہیں۔ ابھی وہ جھگیاں ہیں۔لیکن اگر اینٹی انکروچمنٹ ادارے نے بروقت کارروائی نہ کی تو کچھ دنوںمیں یہ جھگیاں کچےگھروں میں تبدیل ہوجائیں گی اور پھر کچھ عرصے کے بعد کچی آبادی قرار دیئے جانے کا مطالبہ آجائے گا۔ اب بھی وقت ہے اس پر فوری توجہ دی جائے۔ بالکل اسی طرح سہراب گوٹھ سے لیکر بحریہ ٹاؤن اور اس سے آگے جگہ جگہ خانہ بدوشوں اور دوسرے شہروں اور علاقوں سے آئے ہوئے Replacement کے شکارلوگوں نے کچی آبادیاں قائم کرنی شروع کردی ہیں۔ اس کی طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ورنہ ان قابضین کی بڑھتی ہوئی تعداد آگے چل کر ایک بڑا مسئلہ بن سکتی ہے لہذا ان قابضین کی حوصلہ شکنی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر ذرا سا غور اور تحقیق کی جائے کہ آخر یہ خانہ بدوش اور قابضین اتنی بڑی تعداد میں آئے دن کیسے آجاتے ہیں توباآسانی سمجھ میں آجائے گا کہ ایک طرف کراچی کا " معاشی حب" ہونااس کی وجہ ہے تودوسری طرف " خیراتی حب" ہونا بھی۔ یعنی سارے مخیر حضرات اور رفاہی ادارے بڑے پیمانے پر خیرات اور صدقات کا سلسلہ کراچی میں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لیے مصروف ترین شاہراہوں کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ تشہیر ممکن ہو(جبکہ خیرات وصدقات کو چھپ کر دینے کی ترغیب کی گئی ہے) یوں ہر سال رمضان سے پہلے ایک بڑی تعداد پسماندہ علاقوں سے یہاںہجرت کرکے آجاتی ہے۔ اور خالی زمینوں پر براجمان ہوجاتے ہیں کہ جیسے خیرات ہی کا حصہ ہے۔اب ان خیراتی اداروں کو ایک اور احسان کرنا ہوگا کہ وہ اپنے مشن کادائرہ کار بڑھائیں اور لوگوں کی ہجرت کا انتظار نہ کریں بلکہ خود پسماندہ علاقوں میں رفاہی کاموں کا دائرہ کار پھیلادیں۔ یقیناً اجر وہاںبھی ملے گا! اب جبکہ کراچی کی حالت زار کو سدھارنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تو ایک ضروری عمل یہ بھی ہے کہ جگہ جگہ فٹ پاتھوں پہ قابضین پتھارے داروں سے بھی فٹ پاتھوں کو واگذار کروایا جائے۔ اور انہیں متبادل میدان یا کھلی جگہ کرائے پہ دی جائیں۔ اور اس کی صفائی انہیں پتھارے داروں کی ذمہ داری ہویا صفائی کی رقم کرائے میں شامل ہو۔ جیسے اور ملکوںمیں مختلف علاقے پتھارے داروں کے لیے مختص کئے جاتے ہیں۔ جنہیں کرایہ دے کر پتھارے دار حاصل کرتے ہیں۔ یوں وہاں فٹ پاتھوں اور سڑکوں پہ گندگی یا ٹریفک کے بہاؤ میں خلل نہیں پڑتا۔ یقیناً یہ سب کچھ ایک دم سے نہیں ہوگا۔ مرحلہ وار ہوگا۔ مگر غیرقانونی قابضین سے کراچی کو بچانا ہوگا۔ بہت ہوچکا ووٹ کے نام پہ کچی آبادی ایکٹ کا استعمال!

تازہ ترین