• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سقوط ڈھاکہ ہماری قومی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اس کے اسباب اور ذمہ داروں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھاجاتا رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ جو عوامل ایک گھر یا خاندان کے ٹونٹے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں وہی عوامل ایک ملک ٹوٹنے میں بھی کار فرما ہوتے ہیں اور ان میں سب سے بڑا عنصر ناانصافی یا حقوق کی پامالی کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایک ہی گھر کے افراد جن میں مذہب ،مسلک، قومیت اور زبان کے علاوہ خون کا رشتہ بھی ہوتا ہے۔ ایک دوسرے سے دور ہوجاتے ہیں۔ سقوط مشرقی پاکستان بھی ناانصافی اور حقوق کی پامالی کی د رد ناک داستان ہے۔ قیام پاکستان کے وقت مغربی اور مشرقی پاکستان کا کلچر ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھا۔ سیاسی لحاظ سے مشرقی پاکستانی مغربی پاکستانیوں کی نسبت بہت زیادہ بیدار اور حساس تھے بلکہ وہ مغربی بنگال کے بنگالیوں سے بھی زیادہ متحرک تھے اور1905ء میں مغربی بنگال کے معاشی تسلط کے خلاف بغاوت کرکے ان سے علیحدہ ہوچکے تھے، وہی تحریک پاکستان کے اولین محرک بھی تھے جس کے ذریعے وہ اپنے معاشی اور معاشرتی حقوق حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک غیر جاگیردارانہ معاشرے میں رہتے تھے جہاں جاگیردارانہ معاشرے کی غلامانہ مصلحت یا سوچ نہیں پائی جاتی تھی جبکہ مغربی پاکستان میں جاگیردارانہ معاشرے کے ساتھ ساتھ برطانوی دور میں ابھرنے والی افسر شاہی کا بھی خاصا عمل دخل تھا۔
ان حالات میں دونوں حصوں کو اکٹھا رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ انہیں1940ء کی قرار داد لاہور کے اولین مسودے کے مطابق مکمل صوبائی خود مختاری دے دی جاتی تاکہ وہ اپنے اپنے حالات اور ضرورتوں کے مطابق اپنی اپنی حکومتیں چلاتے لیکن قائد اعظم اور قائد ملت کے بعد مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی بیورو کریسی، ملٹری اور مذہبی اشر افیہ اور جاگیرداروں نے پاکستان کی ریاست اور سیاست پر قبضہ کرلیا اور بنگالیوں کو جو اکثریت میں تھے اقتدار ،اختیار اور امور حکومت سے نکالنا شروع کردیا۔ غیر منتخب بیوروکریٹ گورنر جنرل غلام محمد نے53ء میں بنگالی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی منتخب حکومت کو غیر آئینی طریقے سے برطرف کرکے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان نفرت کی ایک خلیج حائل کردی۔ اسی طرح بنگالی کو قومی زبان بنانے کی تحریک اور مشرقی پاکستان کی عددی برتری ختم کرنے کے لئے ون یونٹ کے قیام نے بنگالیوں کے احساس محرومی کو اور گہرا کردیا۔
جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف جب مغربی اور مشرقی پاکستان میں یکساں احتجاجی تحریک چلی تو نئے سرے سے یہ امید پیدا ہوگئی کہ یہ سیاسی یگانگت جمہوریت کی بحالی کے ذریعے دونوں حصوں میں پیدا ہونے والی غلط فہیوں کی خلیج کو پر کردے گی مگر جنرل یحییٰ خان نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کرلیا اور یہ خلیج پر ہونے کی بجائے ناقابل عبور حد تک وسیع ہوگئی، اگرچہ جنرل یحییٰ خان نے آتے ہی جمہوریت بحال کرنے کا وعدہ کیا اور اس سلسلے میں انتخابات بھی کرادئیے لیکن اس کا ارادہ اقتدار چھوڑنے کا ہرگز نہ تھا ۔اس کا ثبوت مارچ 1970ء میں جاری ہونے والا ا س کا وہ لیگل فریم ورک آرڈر ہے جس نے انتخابات اور انتقال اقتدار کو بے معنی بنا کر رکھ دیا ۔ یہ یاد رہے کہ 1970ء کے انتخابات ایک ا ٓئین ساز اسمبلی کے قیام کے لئے منعقد ہورہے تھے اس اسمبلی نے پاکستان کا نیا آئین بنانا تھا کیونکہ یحییٰ خان نے آتے ہی جنرل ایوب خان کے62کے آئین کو منسوخ کردیا تھا۔ اس ایل ایف او کے مطابق نئی اسمبلی کو120دنوں میں لازماً آئین تیار کرنا تھا۔
ایسا آئین جو غیر منتخب صدر مملکت جنرل یحییٰ خان کی پسند کے مطابق ہو، اگر اسمبلی120دنوں میں آئین نہ بنا سکے یا اس کا بنایا ہوا آئین صدر جنرل یحییٰ خان کی منظوری حاصل نہ کرسکے تو دونوں صورتوں میں اسمبلی تحلیل ہوجاتی۔ ایک تو نئے اسمبلی آئین کی تیاری میں120دن کی قلیل مدت کی بندش اس پر غیر منتخب صدر کی منظوری، جنرل یحییٰ خان کی اقتدار منتقل کرنے کے بارے میں اس بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے جس کا اس نے بعد میں مظاہرہ کیا۔70ء کے انتخابات کے بارے میں عموماً یہ خیال پایا جاتا ہے کہ وہ بہت منصفانہ اور شفاف تھے حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اقتدار کے حریص یحییٰ خان نے پری پول دھاندلی کے ذریعے اپنی طرف سے وہ تمام انتظامات کرلئے تھے جس سے انتخابی نتائج اس کی مرضی کے مطابق آسکتے تھے یہ الگ بات ہے کہ پھر بھی نتائج اس کی مرضی کے مطابق نہ آسکے۔ سابق آئی جی پولیس اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو راؤ رشید جو ا س وقت کے بہت سے اہم واقعات کے گواہ بھی ہیں اپنی کتاب”جو میں نے دیکھا“ میں لکھتے ہیں”یحییٰ خان نے ساری ایجنسیوں سے سروے کرایا کہ الیکشن کے نتائج کیا ہوں گے سب نے رپورٹ دی کہ ایسٹ پاکستان میں شیخ مجیب کی اکثریت ہوگی مگر صرف 51 سے 55 فیصد تک ،ویسٹ پاکستان میں کسی پارٹی کی اکثریت نہیں ہوگی لیکن بھٹو کی سیٹیں شاید دوسروں سے زیادہ ہوجائیں، اس پر یحییٰ خان نے مجیب اور بھٹو کو مزید کمزور کرنے کے لئے مشرقی پاکستان میں ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو مسٹر این اے رضوی کے ذریعے مولانا بھاشانی کو پیسے دئیے جبکہ مغربی پاکستان میں بھٹو مخالف سیاستدانوں میں جنرل عمر کے ذریعے رقم تقسیم کی گئی۔
فوجی حکومت چاہتی تھی کہ قیوم خان ایک لیڈر کی حیثیت سے ابھریں کیونکہ وہ مجیب اور بھٹو دونوں کے خلاف تھے۔ انتخابات سے پہلے راؤ فرمان علی نے جو فوج کے دماغ مانے جاتے تھے مجھے خود یہ ساری سکیم بتائی کہ ان کی منصوبہ بندی کے مطابق الیکن رزلٹ ایسے آئیں گے کہ اقتدار مضبوط فوج اور کمزور مجیب کے درمیان بٹے گا پھر یہ کہ مجیب ایجی ٹیٹر ہے وہ حکومت نہیں چلا سکے گا یوں ہمارے لئے اسے ہٹانا آسان ہوگا۔”اسی قسم کے خیالات کا اظہار امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے اپنی کتاب(My white house years)مائی وائٹ ہاؤس ایئرز میں یوں کہا ہے”میں جب یحییٰ خان سے ملا تو وہ انتخابی نتائج کے بارے میں بہت پریقین تھے کہ کوئی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور وہ بدستور صدر کے عہدے پر فائز رہیں گے“ ۔ یہ ہے ان نام نہاد منصفانہ اور شفاف انتخابات کی حقیقت جہاں تک ذوالفقار علی بھٹو پر ملک توڑنے کا الزام ہے تو اس سے ز یادہ کوئی بے بنیاد الزام ہوہی نہیں سکتا کہ یحییٰ خان جو آمر مطلق اور پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک تھا اگر اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کرنا چاہتا تو اسے کون روک سکتا تھا۔ وہ تو ڈھاکہ میں فوجی شکست کے بعد بھی اقتدار سے علیحدہ ہونے کے لئے تیار نہ تھا بقول راؤ رشید”یحییٰ خان نے میدان جنگ میں شکست کھانے کے بعد بھی اقتدار بڑی مشکلوں سے چھوڑا جب ایسٹ پاکستان جارہا تھا تو یحییٰ خان اپنے لئے نیا آئین بنانے کی تیاری کررہا تھا جس کی سب سے اہم شق یہ تھی کہ یحییٰ خان ساری عمر صدر رہیں گے۔ وہ تو فوج میں نوجوان افسر جنرل یحییٰ اور اس کے ساتھ جرنیلوں کے خلاف اتنے مشتعل ہوگئے تھے کہ اسے مجبوراً اقتدار چھوڑنا پڑا“ ۔ جہاں تک مجیب کے ساتھ مذاکرات کا تعلق ہے تو چونکہ انتخابی نتائج کے مطابق شیخ مجیب اکیلے اپنے چھ نکات کی بنیاد پر پاکستان کا آئین بنا سکتا تھا جو کہ ایک مستقل دستاویز ہوتی تو بھٹو کا یہ موقف بجا تھا کہ چونکہ مغربی پاکستان میں مجیب کا ایک بھی نمائندہ کامیاب نہیں ہوا اور مغربی پاکستانیوں نے چھ نکات کے حق میں ووٹ نہیں دئیے اگر ادھر تمہاری اکثریت ہے تو ادھر (مغربی پاکستان) میں ہماری اکثریت ہے، لہٰذا آئین سازی کے موقع پر ہماری یعنی مغربی پاکستانیوں کی رائے بھی سنی جائے تاکہ آئین جیسی مستقل دستاویز دونوں حصوں کے عوام کی رائے کی آئینہ دار ہو۔ یہ تھی”ادھر ہم اور ادھر تم“ کی حقیقت جسے آج تک ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف غداری کی چارج شیٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جناب شیخ مجیب کے چھ نکات میں وفاق سے علیحدگی کے حق، علیحدہ کرنسی کے علاوہ چھٹا نکتہ ہر صوبے کی علیحدہ علیحدہ ملیشیا اور پیرا ملٹری فورس کے قیام کے بارے میں بھی تھا ۔جناب بھٹو نے وفاق پاکستان کو بچانے کے لئے شیخ مجیب کے ساڑھے پانچ تک مان لئے لیکن ہر صوبے کی علیحدہ فوج کا مطلب ایک نہیں پانچ آزاد ممالک تھا، پھر بھٹو کے نکتہ چیں انہیں اس بات پر ہدف تنقید بناتے کہ مشرقی پاکستان تو جاہی رہا تھا بھٹو نے مجیب کے چھ نکات مان کر ملک کو پانچ حصوں میں تقسیم کردیا۔ سقوط مشرقی پاکستان عوام اور عوامی نمائندوں کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ اس کا سبب و ہ غیر جمہوری اور غیر آئینی قوتیں تھیں جنہوں نے عالمی سامراج کے ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر عوام کے حقوق کو پامال کیا اور ملک کو دولخت کردیا۔
تازہ ترین