• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے دوست کو دروازے تک چھوڑنے آیا تو اس سے پوچھا کہ گاڑی کہاں پارک کی ہے؟ اس نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے گیٹ کے ساتھ کھڑی موٹر سائیکل کے ساتھ لٹکتا ہوا شاپنگ بیگ اتارا، اس میں سے ایک بوسیدہ سی شرٹ نکالی اور پہلے سے پہنی ہوئی شرٹ کے اوپر پہن لی۔ پھر ہاتھوں پر گلوز پہنے اور ہیلمٹ پہننے سے پہلے کہنے لگا: علی بھائی! میں اِس ’’گاڑی‘‘ پر آیا ہوں۔ میں نے کہا: یار! تمہارے گھر دو دو گاڑیاں کھڑی ہیں، پھر یہ بوسیدہ اور مشکل یعنی موٹر سائیکل کی سواری؟ دوست نے ایک قہقہہ لگایا اور کہنے لگا: موٹر سائیکل بہترین سواری ہے۔ سو روپے کا پٹرول ڈلوائو تو سارا دن ختم ہی نہیں ہوتا۔ کتنی ہی ٹریفک بلاک ہو دائیں بائیں سے ہو کر بندہ نکل ہی جاتا ہے۔ فٹ پاتھ پر موٹر سائیکل چلا کر راستہ بناتے ہوئے بندہ جلد سے جلد منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ جلائو گھیرائو ہو جائے تو بھی زیادہ نقصان نہیں ہوتا، اگر بائیک چوری ہو جائے تب بھی زیادہ نقصان نہیں۔ یہ تو موٹر سائیکل کی سواری کا ایک پہلو ہے۔ میرے ایک ٹیچر موٹر سائیکل کو شیطانی چرخہ کہا کرتے تھے کہ اس کو چلانے والا کبھی نہ کبھی گرتا ضرور ہے اور چوٹ ایسی لگتی ہے کہ بچ بھی جائے تو بڑھاپے تک دردیں نہیں جاتیں۔ سی ڈی اے کے بعد کراچی میں بھی موٹر بائیک کے لئے شاہراہ پر علیحدہ لائن بنا دی گئی ہے لیکن جن کو لہرا لہرا کر موٹر سائیکل چلانے کی عادت پڑ چکی ہے، انہیں پابند کرنا ذرا مشکل ہے۔

کہا جاتا ہے کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور ویت نام کے بعد پاکستان پانچواں بڑا ملک ہے جہاں روزانہ ساڑھے سات ہزار موٹر سائیکلز فروخت ہوتی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں موٹر سائیکل بنانے والی فیکٹریوں سے 20 لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں تیار ہو کر مارکیٹ میں آئی ہیں۔ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں لاکھوں مکینک موٹر سائیکل ٹھیک کرنے کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ا سپیئر پارٹس کے بزنس نے لوگوں کو روزگار دے رکھا ہے لیکن اتنی بڑی مارکیٹ اور اتنے لوگوں کی سواری کے حوالے سے ہماری حکومتوں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچا۔ چوری بھی سب سے زیادہ موٹر سائیکلیں ہی ہوتی ہیں اور جرائم بھی سب سے زیادہ موٹر سائیکل کے ذریعے ہی ہوتے ہیں۔ نہ کوئی نمبر پلیٹ ہے، نہ کوئی کاغذات اور نہ ہی ڈرائیونگ لائسنس کی پابندی، بس جو پھنس جائے وہ قانون کی گرفت میں، باقی سب بنا کسی قانون کے اس کو ساری زندگی استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اب جب موٹر سائیکل سوار شتر بے مہار ہو چکے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے بنائے گئے قوانین محض مذاق ہیں، تو ان کو قابو کرنا یا قانون کا پابند بنانا مشکل ہو رہا ہے۔ اس سواری کو قانون کا پابندکر کے نہ صرف لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے بلکہ حکومت جرائم پر کنٹرول کرکے اس انڈسٹری کو مزید فعال بھی بنا سکتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین