• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے پاکستان کی علمبردار عمران حکومت، حکومتی ایجنڈے میں ’’ملک میں بڑھتی آبادی کو قابو کرنے‘‘ کو بھی عملی شکل میں ڈھالنے میں سنجیدہ معلوم دیتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی سنجیدگی اس سے ظاہر ہوئی کہ انہوں نے اس قومی مسئلے کو حل کرنے کے لئے بھی روایتی سہی دستیاب مشاورت کے مطابق ٹاسک فورس تشکیل دے دی ہے۔ معلوم نہیں کہ ٹاسک فورس کے سربراہ اور ارکان سماجی ترقی (سوشل ڈویلپمنٹ) اورا بلاغ(کمیونیکیشن) کے ناگزیر تعلق کو کتنا سمجھتے ہیں؟ ان کی علمیت اور اب تک ان کا پیشہ وارانہ حاصل تجربہ دونوں مطلوب علم (سماجی ترقی اور ابلاغ ) سے کتنا متعلق ہے؟ لیکن چیلنج سے نپٹنے کے لئے اصل اور نتیجہ خیز مطلوب علوم یہ دونوں ہی ہیں۔ پھر کچھ اطرافی علوم جو ان پر دوعلوم کے باہمی اطلاق کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے معاون کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسے عمرانیات (سوشیالوجی) سماجی نفسیات(سوشل سائیکولوجی اور شماریات اور ڈیمو گرافی وغیرہ ) جب تک سماجی رویے میں تبدیلی برپا کرنے والے متعلقہ سماجی علوم کے ماہرین اپنے علم کے اطلاق کی مہارت کو ’’آبادی پر کنٹرول‘‘ جیسے چیلنج سے نپٹنے کی بنیادی مہم اور اس کی جملہ ضروریات سے مکمل واقف نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ پاکستان میں اس کے ذرائع کیا اور کہاں ہیں تو ٹیکنو کریٹس کے بغیر ٹاسک فورس کچھ نہ کر پائے گی۔

بلاشبہ تیزی سے بڑھتی آبادی کی شرح ہمارے گھمبیر مسائل میں سے ایک ہے۔المیے کی حد تک ایک بڑی اور تحقیق شدہ حقیقت یہ ہے کہ ایوبی دور کے تقریباً وسط سے ملک میں آبادی میں تیز تر اضافے پر قابو پانے کے لئے جو جارحانہ ابلاغی مہمات شروع ہو کر 80کے پورے عشرے تک جاری رہیں ان کی مقررہ نتیجہ حاصل کرنے میں کامیابی صفر ہے ۔ یہ تحقیق سے ثابت شدہ ہے ۔ یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مقررہ ہدف (آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح میں کمی) کے حصول میں یکسر ناکامی کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ آبادی میں اضافے کو قابو میں لانے کے لئے یہ ملک گیرہنگامی مہمات 100فیصد ناکام ثابت ہوئیں ۔ لیکن یہ حقیقت حتمی ہے کہ ملکی آبادی میں شرح اضافہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ’’کامیابی‘‘ کا مطلب یہ ہوتا کہ اعشاریہ ایک فیصد ہی کمی ہوئی جو دستیاب ڈیٹا کے مطابق نہ ہوئی اور اضافہ 11سال تک 3.1اور 3فیصد سالانہ میں ہی فیکچوئٹ ہوتا رہا۔ کامیابی فقط اتنی جو (اپنے مرحلے ) میں بڑی تھی کہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے موضوع (خاندانی منصوبہ بندی) سے آگاہی کا ریٹ کافی تیزی سے بڑھتا 94 فیصد تک پہنچ گیا جو 80کی دہائی کے وسط میں ہی ہو چکا تھا لیکن اضافے کی شرح جوں کی توں 3اور 3عشاریہ ایک کےدرمیان ہی رہی۔ واضح رہے ’’آگاہی‘‘ سماجی شعبے میں کسی بھی ترقیاتی ہدف کو حاصل کرنے کا مطلوب سماجی ماحول ہوتا ہے، جس کا درجہ پاکستان میں آبادی کنٹرول کرنے کی ابلاغی مہمات میں اطمینان بخش حد تک بلند ہوا۔ لیکن آگاہی (Awareness) اور مقررہ ہدف (شرح اضافہ میں کمی) میں فرق ہے۔ ’’مقررہ ہدف‘‘ ابلاغی مہم کا حاصل ہونا ہے اور ’’آگاہی‘‘ ہدف حاصل کرنے کی سازگار فضا، جو مطلوب درجے پر ہم پیدا کر کے بھی، مقررہ ہدف حاصل نہ کر سکے۔ بہت باریک بات ہے۔ وجہ سخت جامد رویہ تھا۔ یہ سماجی رویے کی وہ کیفیت ہوتی ہے جس میں درست کو دل میں درست تسلیم کر کے بھی، عملاً اختیار نہیں کیا جاتا۔ اس کا علاج پھر فقط ایک ہی رہ جاتا ہے۔ وہ ’’مطلوب ابلاغی معاونت‘‘ ہے۔ یہ کیا ہے؟ جواب علم ابلاغیات میں بہت مفصل اور کھلا راز ہے۔ ٹاسک فورس میں سے ایک بھی اس سے واقف ہوا اور وہ مستعد بھی ہوا تو وزیر اعظم کی آبادی کنٹرول پر بنائی گئی ٹاسک فورس ضرور کچھ حاصل کر پائے گی۔ وگرنہ ریت سے مچھلی نہیں ملے گی۔

اندازہ یوں لگا لیں کہ پاکستان میں آبادی کنٹرول کرنے کے لئے میڈیا سے جو جارحانہ ابلاغی مہمات چلیں، ان کی کامیابی جب فقط بلند درجے کی آگاہی تک محدود ہو گئی اور نوبت مقررہ ہدف کا ایک فیصد عدم حصول تک رہی تو ’’فاٹا‘‘ اور اندرون سندھ کی نشاندہی آبادی میں سب سے ٹربلنگ پاکٹس کے طور پر ہوئی، جہاں پاکستان کے5.6ارکان پرمشتمل اوسط گھرانے سات عشاریہ سات نفوس پر مشتمل تھا۔ اس تحقیق کا مقصد ابلاغی مہم کے مطلوب اثر کرنے میں ناکامی کی وجہ تلاش کرنا تھا۔ جو تحقیق کے نتیجے میں ’’خوشحالی‘‘ کا مختلف تصور نکلی۔ یوں کہ ابلاغی مہم میں ’’دو بچے خوشحال گھرانہ ‘‘ اور ’’وقفہ بہت ضروری ہے‘‘ جیسے سلوگنز کا الٹ اثر نکلا۔ کیونکہ اشتہاری پیغامات میں خوشحال ہنستےمسکراتے بچے اور بچی کتابوں کے ساتھ صاف ستھرے لباس میں سکول جاتے، گھر میں ہنستے بستے بچے خوشحالی کی علامت کے طور پر پیش کئے جاتے، جبکہ ’’فاٹا‘‘ میں ہونے والی تحقیق نے واضح کیا، وہاں اوسط گھرانے میں خوشحالی کا تصور گھر کی رونق بہشکل زیادہ بچے خصوصاً زیادہ تر بچوں کی پیدائش پر مشتمل تھا۔ گویا ان کے نزدیک ’’دو بچے سنسان گھرانہ‘‘ ایک بے رونق فیملی یونٹ، وہ کیسے خوشحال ہو سکتا ہے ۔ نر بچے فیملی یونٹ کے استحکام کی علامت کا تصور ہر گھر میں موجود تھا۔ یہ صورت اور تصور کوئی ’’فاٹا‘‘ تک ہی محدود نہیں ہو گا۔ ایک نہ ایک فیصد یہ کراچی لاہور، پشاور، اور کوئٹہ میں بھی پایا جاتا ہو گا۔ گویا ساری ابلاغی مہمات بے کار ثابت ہوئیں، تاہم آگاہی معاشرے میں ضرور ہوئی۔

یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے لیکن ٹاسک فورس کی Consumptionکے لئے عرض ہے کہ کھلا راز یہ ہے کہ اتنی آگاہی کے بعد دو جہات ایسی تھیں جن پر کام ہونا چاہئے تھا۔ صرف ایک پر ہوا۔ کھلے راز کی صورت ماس کمیونیکیشن کی بجائے ضرورت بلند درجے کی آگاہی کے بعد انٹر پرسنل کمیونیکیشن آپریشنز میں جانے کی تھی۔ جسے سابقہ وزیر اعظم بے نظیر کے دوسرے دور میں ملک گیر نظام ’’لیڈی ہیلتھ ورکرز سسٹم ‘‘ کے طور پر اختیار کیا گیا تو 90کے عشرے کے وسط تک آبادی کی شرح میں منفی 5سے 6فیصد تک کی سالانہ کمی ہوئی لیکن رک گئی۔ یہ ایک انقلابی کامیابی تھی جو جاری اس لئے نہ رہ سکی کہ ’’لیڈی ہیلتھ ورکرزسسٹم‘‘ سیاست کی نذرہو گیا بھرتی سیاسی ہو نے لگی۔ یہ ورکرز کام کریں یانہ کریں تنخواہ ملتی رہی ۔ سیاست دانوں اور منتخب نمائندوں کی سفارش پر بھرتیاں ہوئیں۔ یہ ورکرز پاور فل میڈیا سے زیادہ موثر ثابت ہو رہی تھیں ان کا ابلاغ بمطابق تربیت سماجی اور ثقافتی رویوں کے عین مطابق تھا، لیکن پھرپورا نظام اسٹیٹس کو کی نذر ہو گیا ۔ کام میں ڈھیلا پن آ گیا۔ تربیت کا معیار گر گیا۔ بھرتیاں خلاف میرٹ ہوتی رہیں۔پھر تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور سسٹم کے تباہ ہونے پر تقرریاں اور ترقیاں رک گئیں اور الیکشن18سے تین چار ماہ قبل لیڈی ہیلتھ ورکرز پنجاب میں سڑکوں پر تنخواہوں کی وصولی کے مطالبے پر لاٹھیاں کھاتی رہیں اور دھرنے دیتی رہیں۔ دوسری جہت جو حکومتیں سمجھ ہی نہ سکیںاور این جی اوز نے سمجھ کر بھی اپنے مطلب کے لئے نہ سمجھایا ، اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین