آپ سب کو اظہارِ رائے کی آزادی تو حاصل ہے لیکن اظہار کے بعد آزادی کی کوئی ضمانت نہیں۔ (عدی امین، مشرقی افریقہ کے ملک یوگنڈا کے ڈکٹیٹر)
انصار عباسی صاحب نے اپنے گزشتہ کالم میں جو فرمایا، وہ سب ہمارا سرمایا۔ مجھے ان کی اس بات سے مکمل طور پر اتفاق ہے کہ سارا قصور سہیل وڑائچ صاحب کا ہے جو بہت حساس ہو گئے ہیں اور کچھ لکھنے اور کہنے ہی نہیں دیتے۔ انصار عباسی کے اس کالم سے بہت سی Mythsٹوٹی ہیں۔ مثال کے طور پر مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ سہیل وڑائچ سے میری یاری سب پر بھاری ہے مگر یہ کالم پڑھنے پر معلوم ہوا کہ وڑائچ صاحب بہت مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں اور ہر شخص کو دوستی کے خمار میں سرشار کر کے اس زعم میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ ’’وڑائچ تے میرا اے‘‘۔ اسی طرح بہت سے لوگ اس واہمے کا شکار تھے کہ صحافت ایک بار پھر ابتلا و آزمائش کے پُرفتن دور سے گزر رہی ہے اور اظہارِ رائے کی آزادیاں محدود ہی نہیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ میرے ایک اور دوست سید شفاعت علی جو معروف نقال ہیں اور اہم شخصیات کی پیروڈی کرکے مسکراہٹیں بکھیرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں، انہوں نے بھی چند روز قبل یہ بتانے کی جسارت کی تھی کہ چند ایک سینئر صحافیوں اور اینکرز کی بے روزگاری کا سنسر شپ سے کوئی تعلق نہیں اور اس کا سبب میڈیا کو درپیش معاشی بحران ہے۔ ان کی اس تاویل کو کچھ زیادہ پذیرائی نہ ملی اور بعض احباب نے شدید خفگی کا اظہار کیا۔ لیکن انصار عباسی اس حقیقت سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ پاکستان میں اہل صحافت پر کوئی قدغن نہیں۔
یقین جانئے اگر اظہارِ رائے کی آزادی کے اعتبار سے دنیا بھر کے ممالک کی رینکنگ کی جائے تو پاکستان کا نام سرفہرست آئے۔ اگر آپ کسی دشمن ملک کے ایجنٹ ہیں تو شاید آپ کو اس بات پر یقین نہ آئے لیکن سچ یہی ہے کہ ہمارے ہاں کڑی تنقید کرنے والے کالم نگاروں اور اینکرز کو پھولوں کے گلدستے پیش کئے جاتے ہیں اور تنقید کی صورت میں اصلاح کا موقع فراہم کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔ اگر ادارتی پالیسی کا تعین کرنے کے لئے سہیل وڑائچ جیسے انتہائی حساس لوگ موجود نہ ہوتے تو پاکستان میں مستعمل ڈکشنریوں سے سنسر شپ کا لفظ ہی حذف کر دیا گیا ہوتا اور نئی نسل کو اس اصطلاح کا مفہوم ہی معلوم نہ ہوتا۔ کل ملا کر بات یہ ہے کہ آزادیٔ صحافت کو کسی ادارے سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ سہیل وڑائچ جیسے لوگ اس آزادی کے راستے کا پتھر بنے ہوئے ہیں۔ سہیل وڑائچ صاحب ’’فیض عام‘‘ کے نام سے کالم لکھتے ہیں لیکن میرے کسی کالم میں غلطی سے بھی فیض کا ذکر آجائے تو جانے وہ اسے کسی حساس نام سے موسوم کر کے کیوں حذف کر دیتے ہیں۔ میں لاکھ وضاحتیں دوں کہ یہ لفظ معنوی اعتبار سے جملے میں شامل کیا گیا ہے یا پھر یہاں لفظ فیض سے معروف شاعر فیض احمد فیضؔ کا ذکر خیر مقصود ہے، لیکن میرے ممدوح سہیل وڑائچ ایک نہیں سنتے اور کالم ناقابل اشاعت قرار دیدیا جاتا ہے۔
گاہے سوچتا ہوں کہ ماضی میں اہل قلم پر جو کوہِ غم توڑے گئے ان پر بھی سہیل وڑائچ ہی کی زجر و توبیخ ہونی چاہئے۔ پاکستان میں سنسرشپ کی ابتدا قیام پاکستان کے فوراً بعد تب ہوئی جب 11اگست 1947ء کو قائد اعظم کے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کو سنسر کرنے کے لئے پہلی پریس ایڈوائس جاری کی گئی۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ قائد کی تقریر کو سنسر کرنے کی جسارت کس نے کی مگر انصار عباسی کا کالم پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اس کی ذمہ داری بھی سہیل وڑائچ پر ڈال دی جائے توکسی کو تعجب نہ ہوگا۔ اسی طرح فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کے ذریعے صحافت کا گلا گھونٹنے کی جو کوشش کی گئی، تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس کے پیچھے الطاف گوہر کی سوچ کارفرما تھی لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب بھی سہیل وڑائچ کا ہی کیا دھرا تھا۔ جنرل یحییٰ خان کے دورِ اقتدار میں سنسر شپ کا سورج سوا نیزے پر تھا اور قوم یہ سمجھ رہی تھی کہ ہمارے جوان دشمن کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں مگر بھارتی ریڈیو کے ذریعے اچانک خبر ملی کہ جنرل امیر عبداللہ نیازی نے ڈھاکہ کے پلٹن گرائونڈ میں ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ میں کسی شک و شبہ کے بغیر یہ بات کر سکتا ہوں کہ حقیقت پر پردہ ڈالنے کی اس گھنائونی حرکت کے پیچھے بھی سہیل وڑائچ کی ہی سوچ کارفرما تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت میں صحافیوں کو نہ صرف انفرادی طور پر کوڑوں کی سزا دی گئی بلکہ اجتماعی طور پر بھی صحافت کی پیٹھ پر سنسر شپ اور سیلف سنسر شپ کے چابک رسید کئے گئے۔ میں پورے وثوق کیساتھ یہ بتا سکتا ہوں کی اس ظلم اور جبر ناروا کے پیچھے کسی ادارے کا کوئی ہاتھ نہیں اور یہ سب سہیل وڑائچ کی کارستانی تھی۔
چیستاں میں لپٹی پہیلی تو یہ ہے کہ سہیل وڑائچ ہمیشہ سے ایسے نہ تھے۔ ایک برس پہلے تک سہیل وڑائچ نہ صرف خود دبنگ کالم لکھا کرتے تھے بلکہ دیگر لکھنے والوں کو بھی ان ادارتی صفحات پر وہ آزادی میسر تھی جس کا کسی اور ادارے میں تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ مگر رفتہ رفتہ وڑائچ صاحب حساس ہوتے چلے گئے۔ انتخابات سے قبل مہلک قسم کی سنسر شپ یہ سوچ کر برداشت کرلی کہ نئی جمہوری حکومت آئے گی تو یہ بندوبست مُٹھی میں بند ریت کی مانند ہتھیلی سے پھسل جائے گا۔ لیکن نئے پاکستان میں بھی پرانی سنسر شپ پالیسی پورے جوبن پر دکھائی دی اور پہلی بار یہ صدمہ سہنا پڑا کہ ایک ماہ کے دوران 8میں سے 5کالم سنسر شپ کی نذر ہو گئے۔ مجھے پہلے بھی شک تو تھا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے، بھلا کوئی جمہوری حکومت اظہارِ رائے کی آزادیاں کیسے سلب کر سکتی ہے؟ لیکن جب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے صورتحال کی وضاحت کی اور انصار عباسی جیسے سچے اور کھرے انسان نے گواہی دی تو مجھے یقین ہوگیا کہ سنسر شپ دراصل سیلف سنسر شپ ہے اور قصوروار کوئی ادارہ نہیں بلکہ ایک شخص ہے جس کانام سہیل وڑائچ ہے۔ مگر پھر دوستی آڑے آجاتی ہے اور سوچتا ہوں شاید سہیل وڑائچ ہمارے خیر خواہ ہیں اور انہیں عدی امین کی اس بات پر یقین ہے کہ ہمارے ہاں اظہارِ رائے کی آزادی تو ہے مگر اظہار کے بعد آزادی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ممکن ہے اسی خدشے کے پیش نظر وہ ہمیں کچھ لکھنے نہیں دیتے۔