یہ ایک ایسا واقعہ ہے، جو میں کسی اور کی زبانی سنتی، تو کبھی یقین نہ کرتی، مگر چوں کہ میری والدہ اور والد اس کے گواہ تھے، لہٰذا اس کی صداقت پر مجھے کسی بھی قسم کا کوئی شبہ نہیں۔ میرے والد صاحب سچّے، کھرے اور نیک انسان تھے۔ وہ اپنی دیانت داری، محنت اور نیک نامی کی وجہ سے علاقے اور عزیزوں میں عزّت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اُن کی شخصیت کے بارے میں مختصراً بتاتی چلوں کہ وہ اٹک کے ایک مضافاتی گائوں کے غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ دادا نے اپنی حلال کمائی اور اچھے اخلاق کی دولت سے بچّوں کی پرورش کی۔ میرے والد اُن کی پہلی اولاد تھے۔ وہ عادات و اطوار میں دادا پرگئے تھے۔ بے حد رحم دل اور محنتی تھے۔ دادا نے انہیں اسکول میں داخل کروایا، لیکن چھٹی جماعت کے بعد وہاں ہائی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے میرے والد مزید آگے پڑھنے اور تعلیم جاری رکھنے سے قاصر تھے۔ والد صاحب باپ کی مجبوری سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے اپنے طور پر کتابوں سے محبت جاری رکھی۔ ان کی تحریریں اس عمر میں بھی پختہ تھیں اور لکھائی ایسی تھی کہ پڑھنے والے داد دیئے بغیر نہ رہتے۔ انگریزی، اردو اور فارسی پر انہیں خاصا عبور تھا۔ اس زمانے میں چھوٹی عمر میں شادی کا رواج عام تھا۔ والد صاحب کی قابلیت سے متاثر ہوکر ایک امیر خاندان کی لڑکی کا رشتہ آیا اور یوں ان کی کم عمری میں شادی ہوگئی۔
شادی کے بعد والد صاحب کراچی چلے آئے اور جلد ہی سرکاری نوکری سے منسلک ہوگئے۔ ساتھ ہی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ قیامِ پاکستان کے ابتدائی دنوں ہی میں وہ ملازم ہوئے اور ترقی کی منازل طے کرتے رہے۔ تیسرے بچّے کی پیدائش کے بعد بیرونِ ملک ایک اعلیٰ عہدے پر پوسٹنگ ہوگئی اور وہ ایران چلے گئے۔ اپنی خوش اخلاقی اور محنت کی وجہ سے جلد انہیں وہاں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ شخصی خوبیوں کی وجہ سے ہر شخص انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا۔ ابّو عموماً اپنی ڈیوٹی کے دوران سرکاری کام کے سلسلے میں چند روز کے لیے زاہدان جایا کرتے تھے۔ وہاں سے واپسی پر خشک میوہ جات لاد کر لاتے اور پاکستان میں فروخت کروادیتے تھے۔ یہ کام وہ قانونی کارروائی پوری کرکے دیانت داری سے انجام دیتے تھے۔ اس اضافی آمدنی سے ہماری دیگر ضروریاتِ زندگی بہ خوبی پوری ہورہی تھیں۔ اس زمانے میں جہاز کی سروس میسّر تھی، نہ ٹرین کی۔ اپنی گاڑی میں خشک میوہ جات کی بوریاں رکھ کر لے آتے۔ ایک نوکر کو وہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ وہ دونوں زاہدان پہنچنے کے لیے صبح منہ اندھیرے نکل جایا کرتے، تاکہ رات ہونے سے پہلے پہلے زاہدان پہنچ جائیں۔ وہاں تک کا راستہ خطرناک اور جنگلی خوں خوار جانوروں سے بھرا ہوا تھا، راستے میں بسا اوقات کئی درندوں سے سامنا بھی ہوتا۔ وہ دُور سے انہیں دیکھ کر اپنا راستہ تبدیل کرلیتے تھے۔ والد صاحب کی زبانی ہم نے کئی ایسے قصّے سُنے تھے، جن میں کئی بار خطرے نے انہیں آگھیرا، مگر وہ اللہ کی مدد سے اپنی جان بچانے میں کام یاب ہوگئے۔ ان ہی دنوں کا سب سے انوکھا اور دل چسپ قصّہ والد صاحب کی زبانی قارئین کی نذر کررہی ہوں۔
’’میرا ملازم میری طرح مہم جُو اور بہادر تھا، اُسے میں ہمیشہ ساتھ رکھتا تھا، وہ میرا مزاج شناس اور مجھ سے محبت کرتا تھا، راستے میں میرا ہر طرح سے خیال رکھتا، مجھے جانوروں سے ہمیشہ اُنس رہا، بچپن میں ہر طرح کے پالتو جانور پالتا رہا، اس لیے کبھی کوئی جانور زخمی ہوجاتا یا بیمار پڑ جاتا، تو خود ہی جڑی بوٹیوں سے اُن کا علاج کرلیا کرتا تھا۔ یہ عادت مجھے والدہ کی طرف سے ملی تھی، وہ جانوروں کے علاج میں خاصی مہارت رکھتی تھیں۔ کراچی آنے کے بعد بھی میں نے یہ عمل کسی نہ کسی طرح جاری رکھا تھا، مگر ایران میں یہ ممکن نہ رہا، یہ شوق میں زاہدان جاتے ہوئے راستے میں پورا کرلیا کرتا، راستے میں کوئی معصوم جانور دکھائی دیتا یا سڑک پر کوئی زخمی جانور پڑا دکھائی دیتا، تو گاڑی روک کر اس کی تکلیف رفع کرنے کی کوشش کرتا۔ میرا ملازم میرے اس جذبے کی قدر کرتا تھا۔ اس نے خود بھی مجھے جانوروں کے زخموں کے علاج کی کچھ ادویہ لاکر دی تھیں۔ عام حالات میں، مَیں درندوں سے دُور رہتا تھا۔ ایک دن میرا ملازم ہاشم بیمار ہوگیا اور اس نے میرے ساتھ جانے سے معذرت کرلی۔ میرا جانا بہت ضروری تھا، لہٰذا میں نے اکیلے ہی زاہدان جانے کا پروگرام بنالیا۔ بیوی بچّوں نے منع کیا، میں نے انہیں تسلّی دی۔ میرا ملازم ہاشم میرا ڈرائیور بھی تھا، لیکن اب مجھے خود گاڑی چلانی تھی۔ اتنا طویل سفر تھا، راستے میں کسی ہوٹل کا نام و نشان نہیں تھا، اس لیے کھانا ساتھ لے جاتا تھا۔ سردی کی وجہ سے کھانا اکثر بُری طرح جم جاتا، ہاشم مناسب جگہ پر گاڑی روک کر عارضی چولہا بناکر سوکھی جھاڑیاں اس کے نیچے رکھ کر ماچس سے آگ جلا دیتا اور کھانا گرم کرکے لے آتا، ہم دونوں گپ شپ کرتے ہوئے کھالیا کرتے تھے۔ مجھے اس بار ہاشم کی یہ ڈیوٹی چوں کہ خود انجام دینی تھی، اس لیے ہرطرح تیاری سے لیس ہوکر زاہدان روانہ ہوگیا۔
میں چوں کہ صبح تقریباً چار بجے گھر سے نکلا تھا، اس لیے بارہ بجے دوپہر تک بھوک محسوس ہونے لگی، تو راستے میں مناسب جگہ دیکھ کر گاڑی سڑک سے ہٹا کر درختوں کے قریب پارک کردی۔ وہ جگہ ایسی تھی، جہاں میں کچھ دیر آرام کرسکتا تھا۔ گاڑی کا انجن گرم ہورہا تھا، میں نے بونٹ اٹھادیا۔ قریب پانی مدہم رفتار سے بہہ رہا تھا۔ میں نے پہلے کھانے کا فیصلہ کیا، کھانا برف کی طرح جما ہوا تھا، اسے گرم کرنا،جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا۔ درخت سے سوکھی ٹہنیاں توڑ کر آگ سلگائی، ان کی مدد سے کھانا بس اتنا ہی گرم ہوسکا کہ پگھل گیا۔ جیسے تیسے اسے حلق سے اتارنے کے قابل بنایا۔ بھوک بڑھنے کی وجہ سے نیم ٹھنڈا کھانا پیٹ بھر کے کھایا۔ پھر وضو کرکے نمازِ ظہر ادا کرنے کے بعد ایک آدھ گھنٹے آرام کا ارادہ کرکے ایک بڑے سے درخت کے تنے سے ٹیک لگاکر آنکھیں موند لیں۔ ہلکی سی غنودگی طاری ہوئی تھی کہ کسی جانور کی غرّاہٹ سے میری آنکھ کھل گئی اور توقع کے قطعی برعکس دُور سے ایک شیر آتا دکھائی دیا، جس کا رُخ میری ہی جانب تھا، اس وقت میں بھاگ سکتا تھا، نہ ہی مدد کے لیے کسی کو پُکار سکتا تھا، ہر صورت مجھے اس کا تر نوالا ہی بننا تھا۔ خوف کے عالم میں قرآنی آیات پڑھتے ہوئے میں نے اپنی آنکھیں میچ لیں۔ اس کے زور زور سے سانسیں لینے کی آواز قریب آتی جارہی تھی، میں نے ذرا سی آنکھ کھول کر صورتِ حال کا جائزہ لیا تاکہ کلمہ ٔ شہادت پڑھ سکوں، غور کیا، تو شیر نڈھال سا ایک پائوں اٹھا اٹھا کر چل رہا تھا اور اس کے پیر سے خون ٹپکتا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ بہت ہی دھیمی چال اور تکلیف کے ساتھ چل پارہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب گرا کہ تب گرا۔ میرے پاس پھل کاٹنے کا چاقو تھا، میں نے اسے نکال کر مضبوطی سے پکڑلیا، اب خطرہ سنگین نہیں رہا تھا۔ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑےہوئے تھے۔ دل میں خیال آیا کہ شاید یہ چڑیا گھر سے بھاگا ہوا لگتا ہے، کیوں کہ مجھے دیکھ کر کسی قسم کے ردِعمل کے بہ جائے مجھ سے چند قدم دُور آکر زمین پر ڈھیر ہوگیا۔ شیر کا خوف انسان کو یوں ہی ادھ مُوا کردیتا ہے۔ میں نے سانس روک لی تھی، مگر وہ اسی طرح پڑا رہا، تو جذبہ ٔ رحم نے مجھے اُکسایا کہ دیکھوں اس جنگل کے بادشاہ کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ دبے قدموں چلتا ہوا جب اس کی طرف بڑھا، تو وہ نیم غنودگی کے عالم میں مجھے دیکھ رہا تھا۔ میرا حوصلہ بڑھا، جھک کر دیکھا، تو اس کے جس پائوں سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا، وہاں ایک موٹی سی بڑی کیل دکھائی دی۔ خاصی مقدار میں خون بہہ جانے کی وجہ سے اس پر شدید نقاہت طاری ہوچکی تھی۔ میں نے ایک ڈنڈی اٹھا کر اس کا پیر ہلایا، لیکن وہ کسی قسم کا ردِعمل دینے کے قابل نہیں رہا تھا۔میرا دل اس کے درد سے بھرگیا۔ اپنی جان کی پروا کیے بغیر گاڑی سے پلاس نکالا، جانوروں کے زخموں کی دیسی دوائیں میری گاڑی میں ہمیشہ موجود رہتی تھیں، جن میں پٹّیاں بھی شامل تھیں۔ پہلے میں نے اس کا پنجہ ہاتھ میں لیا اور پلاس کی مدد سے بیچوں بیچ گڑی کیل کھینچ کر باہر نکالی، تو خون کا فوّارہ سا اچھل کر زمین کو رنگین کرگیا۔ شیر نیم مردہ حالت میں یوں ہی پڑا رہا۔ پھر میں نے پانی لے کر اس کا خون بند کرکے زخم صاف کیا۔ مٹّھی بھر کے دوا شیر کے پنجے پر تھوپی اور پٹّی کس کے باندھ دی۔
جس درخت سے میں ٹیک لگا کر بیٹھا تھا، اس کی چھائوں شیر پر تھی۔ اس کی حالت بتارہی تھی کہ وہ چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔ میں کچھ دیر کے لیے وہیں ٹھہر گیا کہ ہوسکتا ہے، یہ بچ جائے اور اسے زندہ رہنے کے لیے میری ضرورت پڑجائے۔ اسی درخت سے ٹیک لگا کر میں بھی بیٹھ گیا۔ مجھ پر سے شیر کا خوف ہٹ چکا تھا، کیوں کہ وہ اپنی زندگی اور موت کی آخری جنگ لڑرہا تھا۔ بچ بھی جاتا، تو ناکارہ پنجے اور شدید نقاہت کے ساتھ وہ مجھ پر قطعی حملہ آور نہیں ہوسکتا تھا۔ میں درخت سے ٹیک لگائے اس کی حرکات کا جائزہ لے رہا تھا کہ خدا جانے مجھے کب نیند نے آدبوچا۔ غالباً پون گھنٹہ سویا رہا، پھر ہلکی غرّاہٹ سے میری آنکھ فوراً کھل گئی۔ آنکھیں کھولیں، تو شیر کو متحرک پایا۔ وہ میرے برابر والے درخت کی جڑوں میں پائوں مار رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا، وہ میری باندھی ہوئی پٹّی کو درخت کی زمین سے باہر نکلی جڑوں میں الجھا کر اتارنے کی ہولے ہولے کوشش کررہا تھا۔ میں نے اس حرکت سے روکنے کے لیے ایک چھوٹا سا پتھر اس کی طرف پھینکا۔ اس نے میری طرف سُستی سے دیکھا، میں اٹھنے لگا، تو اس نے اپنا رُخ بدلا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا جس راستے سے آیا تھا، اسی طرف چلا گیا۔ البتہ دو تین بار اس نے مڑکر میری طرف اس انداز سے دیکھا، جیسے میرا شکریہ ادا کررہا ہو۔
اسے جاتا دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ کہیں اس نے اپنی پٹّی اتار نہ دی ہو۔ تصدیق کے لیے جب اس درخت کے پاس آیا، تو مجھے ان جڑوں کے گتھے ہوئے جال کے نیچے ایک ڈبّا سا دکھائی دیا۔ غالباً شیر کے بار بار پنجے مارنے سے وہ جگہ اُدھڑ سی گئی تھی، میں نے فطری تجسّس سے تھوڑی محنت کے ساتھ مزید نیچے تک جڑیں کھودیں، تو چھے سات انچ کی لمبائی والا بکس برآمد ہوا۔ اسے مضبوطی سے تالا لگا کر بند کیا گیا تھا۔ تالا زنگ آلود تھا۔ ایک ضرب میں ٹوٹ گیا۔ کھولا، تو اس میں سونے کی چمکتی دمکتی ڈلّیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ان چھوٹی چھوٹی ڈلّیوں نے میری آنکھیں خیرہ کردیں۔ احتیاط سے وہ بکس اٹھا کر میں نے ان جڑوں اور اس کی مٹّی کو برابر کیا۔ بکس اور تالا زنگ آلود ہوچکے تھے۔ شاید صدیوں پہلے کسی نے انہیں یہاں دفن کیا ہوگا۔ میں نے زاہدان جانے کا ارادہ ملتوی کیا اور واپسی کا سفر اختیار کرلیا۔ راستے بھر سوچتا آیا کہ اس سونے کا کیا کروں۔پھر گھر پہنچ کر بیوی کو سارا قصّہ سُنایا۔ اس نے کہا۔ ’’قدرت نے آپ کو اس نیکی کا انعام دیا ہے، جو آپ نے خدا کی اس بے زبان مخلوق کے ساتھ کی تھی۔ چناں چہ ہم نے وہ سونا اپنے پاس رکھ لیا۔ اتفاق سے ایک ماہ بعد میرے پاکستان ٹرانسفر کے آرڈر آگئے۔ اس سونے کو ساتھ لانا یا فروخت کرنا ممکن نہیں لگ رہا تھا، مگر میری بیوی نے ایک بڑا سا کیک بیک کرکے بڑی ہنرمندی سے وہ سونا اس کیک کے اندر رکھ دیا۔ چیکنگ کے وقت جب اس افسر نے دیکھا، تو بیوی نے معصومیت سے کہا کہ ’’گھر والوں نے ایرانی کیک کی فرمائش کی ہے، لہٰذا ہم نے پوری فیملی کے لیے خصوصی طور پر آرڈر دے کر یہ کیک تیار کروایا ہے۔‘‘ افسر نے زیادہ پوچھ گچھ نہیں کی اور یوں وہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ تحفہ خیریت سے پاکستان پہنچا۔ یہ جو وارے نیارے ہیں، یہ اسی کی بدولت ہیں، بعد میں، مَیں نے ملازمت چھوڑ کر اپنا کاروبار شروع کردیا تھا۔‘‘
یہ ہے میرے والد محترم کا وہ حیران کن قصّہ، جس پر ہم جتنا غور کرتے، حیرانی کم نہیں ہوتی تھی۔ (بیگم پراچہ، پشاور)
آپ ہی سے کچھ کہنا ہے
اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے جوکسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور وآگہی میں اضافے کے ساتھ ان کے لیے زندگی کاسفر آسان کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے، نیز ،اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت پڑے تو آسانی ہوسکے۔ ہمیں اپنی کہانیاں اور آراء اس پتے پر بھیجیں ۔
انچارج صفحہ، ناقابلِ فراموش، جنگ سنڈے میگزین،روزنامہ جنگ، اخبار منزل ،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی