• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی خواہش، کہ تمام پاکستانی ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ اشیاء استعمال کریں، ایک محب وطن کے دل کی آواز ہے تاہم جناب علوی اگر بطور صدر عوام سے باضابطہ اپیل کرتے کہ وہ درآمد شدہ سامان تعیش کی خریداری کے بجائے اپنے ملک میں بنی ہوئی چیزوں کی حوصلہ افزائی کریں تو اس کے زیادہ بہتر اثرات نظر آتے اور متعلقہ حکومتی اداروں اور اسٹیک ہولڈر پر موثر طور پر واضح ہوجاتا کہ انہیں غیر ضروری اشیاء کی برآمدات کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اندرون ملک تیار ہونے والی چیزوں کا معیار بہتر بنانے پر بھرپور توجہ مبذول کرنا ہوگی۔ صدر مملکت کی مذکورہ خواہش کے پس منظر میں بظاہر 30نومبر کی زرمبادلہ کی وہ صورتحال ہے جس میں ڈالر کی قیمت مزید 8روپے بڑھ کر 142روپے تک جاپہنچی تھی۔ یہ صورتحال دیگر تدابیر کے استعمال کے علاوہ ڈالر کی اجارہ داری سے نکلنے کے اقدامات کی بھی متقاضی ہے۔ بلاشبہ موجودہ حکومت نے اشیائے تعیش کی درآمد کی حوصلہ شکنی اور برآمدات بڑھانے کیلئے بعض پالیسی اقدامات کئے ہیں مگر تاحال درآمد گھٹانے اور برآمد بڑھانے کی حکومتی خواہش اس طور پر بھرپور مہم اور عوامی سوچ منظم کرنے کی صورت میں سامنے نہیں آئی جیسی قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں کے بعض ادوار میں دیکھی گئی کہ بیرون ملک سے بغیر سلا کپڑا لایا جانا یا کسی کے پاس بغیر سلا غیرملکی کپڑا پایا جانا سنگین اور قابل سزا جرم سمجھا جاتا تھا۔ اس باب میں کڑی نگرانی کا فائدہ اندرون ملک ٹیکسٹائل کی صنعت کے جلد پیروں پر کھڑا ہوجانے اور پاکستان میں بنے ہوئے معیاری کپڑے کی بیرونی منڈیوں میں کھپت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ پاکستان میں بنی ہوئی چیزیں اندرون ملک استعمال کرنے، برآمدات بڑھانے، تجارت میں مال کے بدلے مال یا مقامی کرنسی کو لین دین کا ذریعہ بڑھانے کے طریقے بروئے کار لاکر وطن عزیز ماضی میں مثبت نتائج حاصل کرچکا ہے۔ اس وقت بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ’’میڈ ان پاکستان‘‘ اشیاء کے استعمال کی سوچ کو منظم مہم میں بدلا جائے۔

تازہ ترین