یوٹرن کیا ہے؟ اس میں جھوٹ ہے، منافقت ہے اور ریاکاری بھی لیکن سب سے بڑھ کر قول و فعل کا تضاد ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے سو دنوں میں یہ تضاد شدید تر ہو کر پاکستان کی سلامتی، معیشت اور جمہوریت کو لے ڈوبا ہے۔ یوٹرن کو عظیم لیڈری ثابت کرنے کا بیان کنٹینر پر کھڑے ہو کر نہیں دیا گیا، یہ کسی جلسے کی گرما گرم سیاسی تقریر بھی نہیں تھا۔ وزیراعظم نے قوم پر ظاہر کر دیا کہ پاکستان کے اعلیٰ ترین منتخب منصب پر سلیکٹ ہونے کے باوجود ان کے فیصلوں کا معیار وہی ہے جو 35پنکچرز، نادرا کے بیسمنٹ میں مشتبہ افسر اور اردو بازار لاہور میں بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ کے بارے میں تھا۔ یہ وہی معیار ہے جس کے تحت 200ارب ڈالر کی مبینہ لوٹ کے مال کو واپس لا کر پاکستان کی معیشت بحال کرنے کا دعویٰ حکومت ملنے کے بعد ایک مسکراہٹ میں اڑا دیا گیا۔ جس پارٹی کو فاشسٹ کہا اس کے وزیر آج وزیراعظم کے ایک بغل میں بیٹھے ہیں اور دوسری بغل میں اُس پارٹی کے وزیر ہیں جسے پنجاب کا سب سے بڑے ڈاکو کہتے عمران خان تھکتے نہ تھے۔ جن آزاد اراکین کو بکاؤ مال کہہ کر حقارت سے ٹھکراتے تھے آج ان کے ووٹوں پر وفاق اور دو صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہے۔ جس پروٹوکول اور بیرونی دوروں کو نہ کرنے کا وعدہ قوم سے کیا تھا وہ وعدہ پاش پاش ہوکر قوم کے زخموں کا مذاق اڑا رہا ہے۔ فرمایا کہ کسی ٹیکس چور کو نہیں چھوڑوں گا اور یہ قوم سے پوشیدہ رکھا کہ بنی گالا محل کا سرمایہ مشرف دور کی ٹیکس ایمنسٹی میں کالے سے سفید کیا گیا تھا۔ یہ بھی کہنے کی جرأت نہ ہوئی کہ چند دن پہلے ان کی ہمشیرہ کے اربوں روپے کے بیرونی اثاثے حالیہ ٹیکس ایمنسٹی میں کالے سے سفید کئے گئے ہیں۔ قول و فعل کا تضاد خنجر بن کر بولنے والے کی پشت میں ایستادہ ہے۔ پورے ملک میں پچھلے سو دن میں وہ لاکھوں بیروزگار خاندان جن کے دہائیوں پرانے روزگار تجاوزات کے نام پر گرائے گئے، یہ پوچھ رہے ہیں کہ بنی گالا کا غیر قانونی طور پر تعمیر کیا جانے والا محل آج تک کیوں کھڑا ہے؟ عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر اپنے ہاتھوں سے بجلی کے بل جلائے، بیرون ملک پاکستانیوں کو بینک کے بجائے ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجنے کی ترغیب دی اور قوم کو سول نافرمانی کے نام پر بغاوت پر اکسایا۔ اس وزیراعظم کے منہ سے ریاست کی رِٹ قائم کرنے کا اعلان کھوکھلا ہے۔ ریاست کی رِٹ قائم کرنے کا اعلان بھی چند گھنٹے بعد یوٹرن بن کر ایک معاہدہ کی صورت میں سامنے آگیا۔ انتظامیہ کو سیاسی اثر سے آزاد کرنے کا اعلان ڈی سی چکوال، آئی جی پنجاب، آئی جی اسلام آباد، ڈی پی او پاکپتن، اور سیالکوٹ کی انتظامیہ کے تبادلوں نے ردی کر دیا ہے۔ قوم نے سو دن میں ایک دفعہ بھی وزیراعظم کے منہ سے دہشت گردوں کو پکڑنے اور بند کرنے کی آواز نہیں سنی۔ البتہ سو دن میں کئی سو دفعہ فرمایا کہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا لیکن پشاور میٹرو کی لاگت 41ارب روپے سے 81ارب پر لے جانے والے نظر نہیں آئے۔ کے پی کے احتساب کمیشن پر 85کروڑ روپے خرچ کرنے اور صرف 15لاکھ بازیابی کرنے والے بھی وزیراعظم کی آنکھ سے اوجھل ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں بڑے زور سے فرمایا ’’مجھے کتنا برا لگے گا کہ ملک کا وزیراعظم کسی اور ملک بھیک مانگنے جائے‘‘۔ عمل یہ کیا کہ پہلے چھ مہینے کوئی بیرونی دورہ نہ کرنے کا وعدہ کرنے والا وزیراعظم پرائیویٹ جیٹ پر آدھا درجن بیرونی دوروں پر گیا جن کا واحد مقصد بھیک مانگنا تھا۔ اب بھیک کو پیکج کا نام دیکر قوم کو دھوکا دے رہے ہیں۔ یوٹرن لینے کو عظیم لیڈری کا معیار سمجھنے کو تمسخر میں اڑایا نہیں جا سکتا۔ پاکستان کے سلیکٹڈ وزیراعظم نے اپنے قو ل و فعل میں صریحاً تضاد کا اعتراف کیا ہے جس کے مضمرات بین الاقوامی ہیں۔ کون سا ملک اور کون سا سرمایہ کار عمران خان پر اعتبار کرے گا؟ بین الاقوامی کمیونٹی وزیراعظم کی دستخط شدہ کس دستاویز کو قبول کرے گی؟ ہر ملک اور سرمایہ کاروں کے ذہن میں ایک ہی سوال گونجے گا کہ پاکستان کی کمٹمنٹ کل یوٹرن بن کر اعلیٰ لیڈری کی ضمانت نہ بن جائے۔ سو دن میں سو یوٹرن صرف سیاسی گفتگو میں ہوتے تو قابلِ برداشت تھے لیکن سو دن کے سو یوٹرن سو فیصد غریب دشمنی کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔ بنیادی وجہ پی ٹی آئی حکومت کی دو سو فیصد بدانتظامی اور نااہلی ہے۔ پاکستانی قوم غریب کش مہنگائی اور مایوسی سے نڈھال ہے، ترجیحات واضح ہیں کہ احتساب کے نام پر انتقام لیا جائے گا، عوام کو مہنگائی کی بھٹی میں جھونک دیا جائے گا اور مزید بھیک کو پیکج کا نام دیکر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے گی۔ عمران خان فرمایا کرتے تھے کہ الیکٹ ایبلز اور کرپٹ لوگوں کو ساتھ ملانے سے اور اقتدار کی خاطر ہر قسم کی سودے بازی کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ پارٹی کے سربراہ وہ خود ہیں۔ سو دنوں نے اور کچھ ثابت کیا ہو یا نہ کیا ہو، یہ واضح کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی بے تدبیری کا منبع بھی وہ خود ہیں۔ کنٹینر پنجرہ بن چکا ہے اور موجودہ حکومت دو عملی کی سلاخوں کے پیچھے قید ہے۔ عمران خان کے مسلسل یوٹرنز کی دراڑیں حاکمیت کو مستقل کمزور کر رہی ہیں۔ قرائن یہی بتاتے ہیں کہ اگلے سو دن پہلے سو دن سے بدتر ہوں گے۔
(صاحبِ مضمون رکن قومی اسمبلی ہیں اور وزیر تجارت، دفاع، اور خارجہ کی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں)