• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر طرف ایک شور بپا ہے، کامیابیوں کا، اہداف کی تکمیل کا، کامیاب یوٹرنز کا، سفارتی گگلیوں کا، نئے سائز کے کشکول کا، غلامانہ سوچ کی مظہر پرشکوہ عمارتوں کے در و دیوار گرانے کا،100روز میں نئے پاکستان بنانے کا، ہر روز نئی خوش خبریاں سنانے کا، انڈوں، مرغیوں اور کٹے، کٹیوں سے معیشت سنوارنے کا، ’’ہم مصروف تھے‘‘ کے بیش قیمت اشتہاروں کا۔ دوسری طرف عوام دشمن اپوزیشن اور اس کی حواری جماعتیں ہیں جو عوام کی خواہ مخواہ ترجمان بنی پھرتی ہیں، ہر بات پہ تنقید، ہر قدم پر گلہ شکوہ اور پھر حکومت پر لعن طعن، ان سے ذرا کوئی پوچھے آخر ایسا ہوا ہی کیا ہے جس کو بنیاد بناکر انہوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے، ان سے اتنا صبر نہیں ہوتا ہے کہ ابھی تو اقدامات کا آغاز ہوا ہے،حکومتی ترجمانوں کےبقول، دراصل ان ’’کرپٹ‘‘ عناصر کو اپنے ماضی کے اعمال اور اب کڑی سزائیں دیوار پر لکھی نظر آرہی ہیں۔ انہی پرمغز و پرعزم ترجمانوں کے بقول نیا پاکستان کی تعمیر پہلے مرحلے میں ہے اور عوام مطمئن، پریقین اور پرسکون ہیں یہ ہنگامہ خیزی و طوفان بدتمیزی محض مخالفین کی عوام دشمن سیاست اور محض سوشل و الیکٹرونک میڈیا پر پروپیگنڈا کی صورت نظر آتا ہے۔ اسلام آباد میں ایک سو دن کی کامیابیوں پر میوزک اور نعروں سے مزین تقریب کےبعد ہمارے پڑھے لکھے پروفیسر صاحب بہت پرجوش تھے، تقریب پر برجستہ بولے یقیناً نئے پاکستان کے قائد اپنے عوام دوست زبانی احکامات اور تحریری اقدامات پر قوم کو تسلی کرا رہے ہیں کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، پھر فوراً ہی ایک قصہ سنا ڈالا، بولے ایک غریب سڑک کنارے بیٹھا رو رہا تھا اچانک کچھ احباب کا گزر ہوا، غریب کو روتا دیکھ کر رکے اور پوچھا کیوں روتا ہے؟ غریب روتے ہوئے چلایا، ہائے میرا سب کچھ لٹ گیا، میرے علاقے کے چند بااثر لوگوں نے میرے گھر کا صفایا کر دیا، مجھے گھر آتا دیکھ کر میری ہتھ ریڑھی کا سامان لوٹ لیا اور ہتھ ریڑھی بھی ساتھ لے گئے، ہائے سب کچھ چھن گیا، اب روزگار بھی گیا۔ سفید پوش بولے پگلے یہ صرف تیرے ساتھ تھوڑی ہوا ہے یہ تو ہر روز کسی نہ کسی کے ساتھ ہوتا رہتا ہے تو اتنا کیوں رو اور چلا رہا ہے؟ غریب بولا جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا، روتا اس لئے ہوں کہ زیادتی کرنے والے کہہ کر گئے ہیں کہ ہم ابھی یہیں ہیں، کہیں نہیں جا رہے، پھر آئیں گے۔

میری ہنسی نکل گئی جس پر پروفیسر صاحب بولے اس قصے کا حکومتی معاملات سے کوئی براہ راست تعلق نہ سمجھیں، پھر گویا ہوئے خدا نے ہمیں درد دل رکھنے والا رہنما عطا کیا ہے، ہمارے منتخب وزیراعظم خود اس ملک اور عوام کے بارے جتنے پریشان ہیں شاید بدقسمتی سے ان کی کابینہ اتنی ہی بے غرض اور لاتعلق نظر آتی ہے، خان صاحب خود تو وزیراعظم ہائوس کے کونے کھدرے میں گزر بسر سےقوم کے پیسے بچانےمیں مصروف ہیں لیکن ان کے وزرا، مشیر اور معاونین اس شاہانہ وزراء کالونی کے مزے لوٹ رہے ہیں، سرکاری گاڑیوں، درجنوں ملازمین، مفت گیس، بجلی، ٹیلیفون، ایئر ٹکٹس کو انجوائے کر رہےہیں جبکہ شاہی نظام کے پروردہ طاقتور سرکاری دفاتر کانظام بھی جوں کا توں ہے۔ عوام پر کچھ خرچ کرنے کی بجائے ان کےپیسےسے تعمیر شدہ دیواریں گرا کر مزید کئی کروڑ کی آہنی دیواریں بنانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، وزرائے اعلیٰ کا قوم کے پیسے پر انگریزانہ طرز زندگی مزید پرتعیش ہو چکا ہے۔ کچھ نیا بنانے کی بجائے گرانے پر زور ہے، 1کروڑ نئی نوکریاں دینے کی بجائے میرٹ پر بھرتی ملازمین کو بے روزگار اور مزدور کے ریڑھی ٹھیلے اٹھائے جا رہے ہیں، بڑے قابضین پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے غریب کے گھر گرائے جا رہے ہیں، تین ماہ میں مہنگائی میں 100فیصد اضافہ اور روپیہ 20سے 30فیصد بے قدر ہو چکا ہے، سب سے اہم اور پریشان کن بات یہ ہے کہ اس بے قدری سے ملکی قرضے 2000ارب روپے تک بڑھ گئے اور12 رب ڈالر (1350ارب روپے) کے سعودی قرضے سے اس حکومت کا قرض کا حجم 3350تک پہنچ چکا ہے، ابھی یو اے ای، آئی ایم ایف سے قرض لینا باقی ہے۔ حد تو یہ ہےکہ جس میڈیا نے دن رات مہم چلا کر کپتان کو عوامی آس و امید اور ووٹ سے اقتدار پر متمکن کیا آج اسی آزاد میڈیا کا جائز حق مار کر ملازمین کو بیروزگار و در بدر کیا جا رہا ہے۔ پروفیسر خاموش ہوئے تو میں نے اپنی مصدقہ اطلاع شیئر کی کہ وزیراعظم کےحالیہ دورہ چین کے دوران چین نے واضح طور پر نقد امداد سے انکار کیا تاہم بطور ذمہ دار پاکستانی صحافی اس ناکامی کو اجاگر نہیں کیا، اب آئی ایم ایف نے بھی قرضی مدد کو ایف اے ٹی ایف کے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے سو فیصد اقدامات سے مشروط کر دیا ہے۔ اس پر پروفیسر صاحب پھر گویا ہوئے کہ وزیراعظم پرعزم ہیں کہ پاکستان کو ہر صورت بحران سے نکالیں گے لیکن اس کےلیے انہیں اپنے وزراء اور ارکان پر بھاری ذمہ داری ڈالنے کے ساتھ ساتھ عوام سے بھی مکمل سچ بولنا ہو گا،بتانا ہوگا کہ زمینی حقائق کیا ہیں واضح کرنا ہو گا کہ آئندہ چند برس خود بطور وزیراعظم، پوری حکومت، ریاستی اداروں اور عوام کو کیا کیا اور کب تک قربانی دینی ہے، پروفیسر صاحب پرعزم ہوکر بولے جا رہے تھے کہ وزیراعظم درست کہتے ہیں کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وطن عزیز کا غریب ووٹر سوچ اور یقین کے ساتھ آج بھی آپ سے امید لگائے کھڑا ہے کہ اب تقاریر، طفل تسلیاں بہت ہو چکیں۔ عوام کے ساتھ برسوں سے ہونے والی ناانصافی اور مشکلات کے خاتمے کی کوئی راہ متعین کی جائے، محض تقریروں اور دعوئوں سے خالی پیٹ نہیں بھر سکتے، لہٰذا جس صلہ رحمی اور غریب پروری کا آپ پرچار کرتے ہیں اس کا کوئی عملی نمونہ پیش کیا جائے۔ یونیورسٹیاں بنائیں، چڑیا گھر بنائیں، عجائب خانے بنائیں لیکن بیروزگاری سے نجات اور 10سے50 ہزار کمانے والے غریب مزدور کی گزر بسر کو آسان بنانے کے اقدامات پہلے کریں۔

تازہ ترین