• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے احتساب عدالت سے ملنے والی سزا اور جیل یاترا کے بعد خاموشی اختیار کئے بیٹھے ہیں جبکہ کرپشن فری گڈ گورننس کے نعرے بلند کرنے والے نیب کی تحویل میں ہیں۔2018 کے انتخابات میں کامیاب ہونے والی وزیراعظم عمران خان کی حکومت اپنے پہلے سودنوں میں کوئی عوام دوست تبدیلی تو نہ لاسکی تاہم انہوں نے پاکستان کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے قوم سے بہت سے وعدے کرلئے ہیں جس کے لئے سو دنوں کے بعد ایک سال کے اندر عملدرآمد کی مہلت مانگی گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو اقتدار کے دیگر سو دنوں کی مکمل آشیرباد اورسپورٹ حاصل ہے اور امید بھی کی جارہی ہے کہ اس سپورٹ کے ساتھ پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنے اہداف مکمل کرنے میں مدد ملے گی ملک کے اندر اس وقت احتجاج کرنے والی کوئی قوت بظاہر باقی نہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) احتساب عدالتوں کا سامنا کررہی ہے 17دسمبر تک احتساب عدالت نے ن لیگ کے قائد سابق وزیر اعظم نوازشریف کے خلاف دو ریفرنسز کا فیصلہ دینا ہے جبکہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف اور مریم نواز کو دی گئی قید و جرمانہ کی سزا کی معطلی کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف نیب کی اپیل پر بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ دسمبر میںہی متوقع ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ سابق صدر آصف علی زرداری جعلی بنک اکاونٹس میں ایف آئی اے میں شامل تفتیش ہیں اور پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری ان کی جلد گرفتاری کی نوید سنا چکے ہیں۔باقی رہ گئی مذہبی سیاسی جماعتیں تو مولانا سمیع الحق کے’’اندھے قتل‘‘ اور بغیر پوسٹ مارٹم سپرد خاک کئے جانے کے بعد اس طرف بھی خاموشی ہے۔25 نومبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں برسی کے انعقاد کے لئے مبینہ طور پر آئین کو للکارنے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں تحریک لبیک کے مرکزی قائدین علامہ خاد م حسین رضوی، پیر افضل قادری، علامہ عنایت الحق سمیت ہزاروں کارکن پابند سلاسل ہیں۔ مرکزی قائدین سمیت فعال کارکنوں کیخلاف بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات درج ہیں اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری ان کے خلاف خصوصی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا بھی باضابطہ اعلان کرچکے ہیں حکومت نے جو پالیسی اختیار کی ہے اس پر کس حد تک عمل ہوتا ہے مستقبل قریب میں اس کا بھی پتہ چل جائے گا۔بریلوی مکتبہ فکر کے قائدین کے خلاف حکومتی اعلان کے فوراً بعد رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین تنظیم المدارس اہل سنت کے صدر مفتی منیب الرحمن نے تنظیم کے دیگر قائدین کے ہمراہ اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تحریک لبیک کے اصولی موقف کی حمایت کی ہے اورمقتدر حلقوں سے تحریک لبیک کے سخت احتجاج پردرگزر کرنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ ماضی قریب میں یہی بے اعتدال حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے بھی سرزد ہوئی تھی ۔ جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ 2018 کے انتخابات میں شکست کے بعد اپنے پرانے حلیفوں سے مل کر عمران خان کی حکومت کے خلاف محاذ قائم کرنے کے خواہاں ہیں مگر ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی مجبوریاں ان کی خواہش پر عملدرآمد کے لئے آمادہ نہ ہوسکیں مولانا تو چاہتے تھے کہ ن لیگ ، پی پی پی اور ایم ایم اے کے ارکان الیکشن کمیشن کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے حلف ہی نہ اٹھائیں مگر مجبوراً انہیں بھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے پیچھے چلناپڑا مولانا فضل الرحمن ایک جلسہ عام میں اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ اگر اُن کا بس چلے تو وہ عمران خان کی حکومت کو ایک دن بھی نہ چلنے دیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کیا کیا جائے بعض کام نہ چاہتے ہوئے بھی کرنے پڑتے ہیں سو پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین، متحدہ مجلس عمل، اے این پی اور ملی عوامی پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتیں نہ چاہتے ہوئے بھی 2018 کے انتخابی نتائج سے بننے والی وفاقی و صوبائی حکومتوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت کے قیام کی وجہ سے سیاسی طور پر زندہ ہے پنجاب ، کے پی کے اوربلوچستان میں بڑا وو ٹ بنک نہ ملنے کے باوجود بھی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری متحرک ہیں اور عوامی اجتماعات کررہے ہیں جبکہ نواز شریف کی سیاسی خاموشی کے بعد ن لیگ کی سیکنڈ قیادت بھی اپوزیشن کا جارحانہ انداز اختیار کرنے سے گریزاں ہے جس کا نہ صرف انہیں تجربہ ہے بلکہ وہ عمران خان کی حکومت کے بعد آنے والی مہنگائی کو ہی ہدف بناکر حکمرانوں کو چپ کر اسکتے ہیں شہباز شریف نے اپنی گرفتاری کے بعد پارٹی کی تنظیم نو کا حکم جاری کرکے کمیٹی قائم کی تھی جو قیادت کے نیب زدہ ہونے کی وجہ سے متحرک انداز میں آگے بڑھتی نظر نہیں آرہی۔ حکومت کے 100 روز کی کارکردگی پر ن لیگ نے وائٹ پیپر جاری کرکے عوام کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے اور واضح کیا ہے کہ صرف ڈالر کی قیمت بڑھنے سے غیرملکی قرضہ 600 ارب ڈالر بڑھ گیا ہے ۔ مہنگائی اور افراط زر میں جتنا اضافہ گزشتہ تین ماہ میں ہوا ہے ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ سرکاری و نیم سرکاری ملازمین ڈالر کی قیمت ایک سو چالیس روپے تک پہنچنے پر واویلا نہیں کررہے مگر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بے ہنگم اضافہ پر حکمرانوں کو بد دعائیں ضرور دیتے نظر آرہے ہیں۔ اس طرح معاشی و سماجی خرابیوں کاایک نیا چکرشروع ہوجاتا ہے ، صدر جنرل محمدایوب خان کے دس سالہ سنہری دور میںمیٹرک کاامتحان پاس کرنے والے ایک شہری نے عمران خان کے پہلے سو دن اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ زیڈ اے بھٹو پاکستان میں انقلاب کا نعرہ لے کر ایوب خان کی حکومت سے الگ ہوا تھا۔ 1972 میں وزیراعظم بنا اور 1977 میں جیل پہنچ گیا مگر پانچ سالہ اقتدار کے باوجود معاشی انقلاب کی عملی شکل سامنے نہ آسکی ڈالر کی قیمت بڑھتی رہی، پاکستان میں اقتدار تبدیل ہورہے ہیں مگر کوئی حکمران ڈالر کی قیمت روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ بیرونی قرضے 92 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں قرضوں کے ادائیگی کے لئے بھی ہمیں قرضے لینے پڑتے ہیں ملک کو قرضوں کے جال سے نکالنے کے دعوے تو بہت کئے گئے مگر کشکول نہ ٹوٹ سکا۔ بڑے بڑے شہروں میں بیٹھ کر ترقی و خوشحالی کی باتیں کی جاسکتی ہیں مگرپاکستان کی پچاس فیصد آباد ی کو آج بھی پوری خوراک میسر نہیں، دیہی علاقوں میں آج بھی اڑھائی تین سو روپے روزانہ پرمزدور مل جاتا ہے بڑی فیملیوں کے لئے بچوں کی اسکول فیس ادا کرنا ممکن نہیں، ضروری اشیاء کی فراہمی ہی مشکل ہوکر رہ گئی ہے، روز گار کے مواقع میسر نہ ہونے کی وجہ سے جرائم کو تقویت مل رہی ہے، دیہی علاقوں میں روزگار کی عدم فراہمی شہروں میں سٹریٹ کرائم میں اضافے کا موجب بن رہی ہے، قانون کی حکمرانی کے فقدان نے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی غلط طریقے سے روزگار حاصل کرنے پر لگا دیا ہے، حلال اور حرام کی تمیز ختم ہو کر رہ گئی ہے، قومی اداروں میں بھی خرابیوں کوخرابیاں سمجھنے سے آنکھیں چرائی جارہی ہے۔ یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ کیا عدلیہ، انتظامیہ اور فوج ایک سال تک منتخب حکومت کا ساتھ دے پائیں گے۔وزیراعظم عمران خان نے نارروال کے قریب پاک بھارت سرحد پر واقع کرتارپورراہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا جس کے ساتھ ہی بھارت نے کرتارپور کوریڈور کے افتتاح کو تاریخی اقدام قرار دینے کے باوجود پاکستان سے مذاکرات شروع نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے ، نہ تو بھارت پاکستان سے بات کرے گا نہ ہی سارک کانفرنس میں شرکت کرے گا۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ آگے بڑھنے کے لئے ماضی کی زنجیریں توڑنا ہونگی ماضی سیکھنے کیلئے ہوتا ہے رہنے کے لئے نہیں، ایٹمی طاقتوں میں جنگوں کا تصور پاگل پن ہے۔ فرانس جرمنی یونین بنا سکتے ہیں توہم کیوں نہیں، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کرتارپور راہداری کو امن کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے۔ گیٹ اور راہداریاں پرامن لوگوں کیلئے ہوتے ہیں کرتارپور راستہ اس کی طرف ایک قدم اور اس خطے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین