• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاپان پاکستان سے زیادہ امیر کیوں ہے؟ یا کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے بڑھ کر دولت مند کیوں ہوتا ہے؟ اس کی کئی ایک وجوہ ہوسکتی ہیں، لیکن قوموں کو دولت مند بنانے والا سب سے اہم عامل تعلیم ہے۔ چنانچہ سوال یہ نہیں کہ ہم پاکستان کو جاپان جتنا امیر کیسے بنائیں، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ہم پاکستان کو جاپان جیسا تعلیم یافتہ کیسے بنائیں۔اس سوال پر کچھ لوگ آپ کو بتائیں گے کہ جاپانی معیار ِتعلیم تک پہنچنے کیلئے زیادہ وسائل درکار ہیں۔ اچھی تعلیم کیلئے بہت زیادہ دولت مند ہونا ضروری ہے۔ تو گویا یہ ایک متناقض صورت ِحال ہے۔دولت مند ہونے کیلئے ہمیں تعلیم یافتہ ہونے کی ضرورت ہے، لیکن تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھی ہمیں دولت مند ہونا پڑے گا۔ اس میںکسی قدر حقیقت کا عنصر موجود ہے، لیکن شکر ہے کہ یہ مکمل سچائی نہیں ہے۔ بہت سے غریب ممالک ہیں جنہوں نے تعلیم حاصل کی اور خوشحال ہوگئے اس کا مطلب ہے اس سفاک دائرے سے نکلنا ممکن ہے اس ضمن میں چین اور ملائیشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ممالک کیلئے غربت اور جہالت کی زنجیر وں کو توڑنا ممکن ہے کیونکہ خوش قسمتی سے تعلیم حاصل کرنے کیلئے دولت واحد عامل نہیں ہے۔ دولت سے کہیں زیادہ فیصلہ کن عامل ایک کلچر ہے جو علم کو پروان چڑھاتا اورتعلیم حاصل کرنے کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ ارسطو کا کہنا ہے کہ بچوں کی نگہداشت کرنا انسانوں کا سب سے اہم کام ہے۔ اس پر غور کرنے سے آپ کو اس جملے میں پوشیدہ سچائی کا اندازہ ہوگا۔ اگر والدین اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اپنے بچوں کی اچھی پرورش کریں تو ایک نسل کی عمر میں ہی معاشرے کی تمام خرابیاں ختم ہوجائیں گی۔ ہر شہری تعلیم یافتہ، مہذب اور مہربان ہوگا۔

لیکن والدین کیلئے اپنے بچوں کی بہتر پرورش کیلئے کیا چیز درکار ہے؟یہ چیز ایک معاشرے اور کلچر کافراہم کردہ ماحول ہے۔ ہم ایک توانا کلچر رکھتے ہیں جو ہماری بود وباش میں اہم کردارادا کرتاہے۔ یقیناً ہمارا کلچر بہت سے مثبت پہلو رکھتا ہے، لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر اس میںجدید تعلیم کو اہمیت نہیں دی جاتی (میں ذاتی طور پر ایک شخص کو جانتا ہوں جس نے اپنے بیٹے کو مہنگی ترین گاڑی لے کردی ہے لیکن اُس کی اعلیٰ تعلیم کیلئے سرمایہ کاری نہیں کی )۔ اور یہ کوئی نادر مثال نہیں ہے۔

یہودی تعلیم کو فروغ دینے اور تعلیمی کامیابی کا جشن منانے کا کلچر رکھتے ہیں، لیکن ہم پاکستان میں اس کی زحمت نہیں کرتے۔ کیوں؟ ایک امریکی ماہر ِمعاشیات، ایڈورڈ مینزفیلڈ کہا کرتے تھے کہ ’’ہٹلر نے ہماری سائنس کی بنیاد رکھی۔‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ نازی جرمنی میں یہودیوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی کی گئی، چنانچہ عقوبت خانوں سے بچ جانے والے بہت سے یہودیوں نے امریکہ کی طرف ہجرت کی۔ ان کی نسلوںنے امریکی یونیورسٹیوں میں سائنسی ماحول قائم کیا اور امریکہ کو اعلیٰ ترین سائنسی محقق دئیے۔ اب تک نو اسرائیلی علم اور تحقیق کے شعبوں میں نوبیل انعام حاصل کرچکے ہیں۔ اسرائیل کی آبادی پاکستان کی آبادی کا بمشکل چار فیصد ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو 225 نوبیل انعام حاصل کرنے چاہئے تھے۔ لیکن ہم نے اب تک صرف ایک نوبیل انعام حاصل کیا ہے، جو پروفیسر عبدالسلام کو ملا تھا۔ اگر پاکستان دنیا میں بہتر مقام حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہمیں اپنے حقیقی ثقافتی ورثے کو بحال کرنا، تعلیم کو اہمیت دینا اور علمی قابلیت کو عظمت کا معیار بنانا ہوگا۔ چاہے ہم اسلامی کلچر کی بات کر لیں یا برِ صغیر کے کلچر کی، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے کلچر نے ہمیشہ تعلیم کو اہمیت دی تھی۔ لیکن پھر ہم راہ سے بھٹک گئے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان نے وسیم اکرم اور جہانگیر خان پیدا کئے، اور ہمیں ان پر ناز ہے۔ لیکن ان سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ہمیں اپنے عبدالسلام، عاطف میاں، نرگس ماولوالہ اور اکبر زیدی کو بھی تکریم دینا ہوگی۔ ہمارے موجودہ معاشرے میں جدید تعلیم کو اہمیت دینا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اسے صرف حکومت پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ معاشرے میں جدید تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کرنا، اور اس کا ماحول فراہم کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس وقت جب میں یہ مضمون تحریر کررہاہوں، مجھے یہ بتا کر بہت خوشی محسوس ہورہی ہے کہ کراچی، پاکستان کے تین قابل ِ فخر بیٹے اپنی ذمہ داری بہت اچھے طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ یہ اسد عالم، آصف ریاض ٹاٹا اور فواد انور تیلی ہیں۔ یہ آئی بی اے کے تعاون سے چلنے والے ’’کراچی تھنک فسٹ‘‘ کو ا سپانسر کررہے ہیں۔ ’’تھنک فسٹ‘‘ پروفیسر یعقوب بنگش کی فکری تخلیق ہے۔ اُنھوں نے گزشتہ سال لاہور میں تھنک فسٹ کا کامیاب انعقاد کیا تھا وہ اگلے سال جنوری میں لاہور میں دوبارہ اس کا انعقاد کرنے جارہے ہیں۔

آٹھ دسمبر بروز ہفتہ تھنک فسٹ آئی بی اے کراچی کیمپس میں اکبر زیدی، جوزف مساد، انوپاما رائو، علی عثمان قاسمی اور ایڈم کوٹسکو جیسے اساتذہ، عشرت حسین، ندیم الحق اور کرسٹن ہارپویکن جیسے ماہرین، نجم سیٹھی، فہد حسین، عاصمہ شیرازی اور مظہر عباس جیسے صحافیوں، جبران ناصراور عائشہ خان جیسے سماجی کارکنوں اور حنیف قریشی جیسے منصفین پر مشتمل ایک روزہ فکری نشست کا اہتمام کررہا ہے۔ یہ احباب،پاکستان اور دیگر ممالک سے آنے والے بہت سے ماہرین ریلوے، پاکستان کے نئے سماجی ڈھانچے، اسلام، لبرل ازم اوربہت سے دیگر موضوعات پر اظہار ِخیال کریں گے۔ ان میں اقبال سے لے کر امبدی کر، اور افغانستان سے لے کر مشرق ِوسطیٰ اور اوسلو معاہدوں پر، اور دہلی کے کھنڈرات سے لے کر پاکستان میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر بات ہوگی۔ اس دوران پاکستانی میڈیا، القاعدہ اور فہمیدہ ریاض کا بھی ذکر ہوگا۔ یہ تھنک فسٹ کئی ایک موضوعات پر متنوع خیالات اور نت نئی سوچ کو ایک مکالمے کی شکل دے گا۔ امید ہے کہ کراچی کے طلبہ اور عام شہریوں کی اس میں شرکت فکری آبیاری اور نئی سوچ کی تحریک کا سامان کرے گی۔ کیاپتہ ان طلبہ میں مستقبل کے کئی ایک عشرت حسین اور حنیف ہوں۔ پاکستان کو تعلیم یافتہ بناناایک طویل مسافت سہی، لیکن اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ تعلیم کیلئے وسائل مختص کرنے سے اس مسافت میں آسانیاں پیدا ہوں گی، لیکن جس فکری تبدیلی کی طرف میں اشارہ کررہاہوں، اس کا تعلق محض بجٹ سے نہیں ہے۔ ہمیں اپنی تعلیمی اقدار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب اساتذہ، مصنفین، شاعروں، سائنسدانوں اور محققین کی تکریم ہوگی، جب انکو سماجی سطح پر پذیرائی ملے گی اور جب معاشرہ اُنکی خدمات کا معترف ہوگا، اُن کی موجودگی اپنے لئے عزت کا باعث سمجھے گا، اورجب والدین چاہیں گے کہ اُنکے بیٹے ارب پتی نہیں، کالج کے پروفیسرز بنیں اُس وقت ہم درحقیقت دولت مند بن جائیں گے۔

(صاحب ِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین