• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیو نیوز کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام نے اس امر پر اتفاق کیا کہ ملک کو نقصان پہنچانے والے شر پسند عناصر کے خلاف ریاست کو سخت کارروائی کرنا چاہئے۔ میزبان حامد میر سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ کچھ علماء و دیندار طبقہ نے گالیوں کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے، جو خطرناک رجحان ہے، کسی پر کفر کے فتوے لگانا یا اسے واجب القتل قرار دینے کی کوئی بھی گنجائش رد ّکی گئی ہے۔ پروفیسر سینیٹر ساجد میر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس رجحان کو نہ روکا گیا تو یہ سوسائٹی کو برباد کرے گا، ایسے لوگ اگر معافی مانگتے ہیں تو اُن سے آئندہ بھی ایسا نہ کرنے کی گارنٹی لینا چاہئے۔ علامہ ندیم عباس نے کہا کہ نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے، کوئی کسی مسلمان کی تکفیر کرتا ہے اور وہ کافر نہیں تو تکفیر اُسی کی طرف پلٹ آتی ہے۔ اس بات سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ سید الانبیا حضور نبی کریمﷺ، جن کا خُلق عظیم قرآن حکیم ہے، نے تمام عمر کسی کے خلاف کوئی سخت زبان استعمال نہ کی بلکہ خود پر پتھر برسانے والوں کو بھی ہمیشہ دعا ہی دی جبکہ صحابہ کرامؓ کا اس حوالے سے طرزِ عمل اس قدر محتاط تھا کہ اگر کوئی کسی حوالے سے فتویٰ طلب کرتا تھا تو ہر کوئی دوسرے سے پوچھتا حتیٰ کہ سوال پوچھنے والے کے پاس وہ معاملہ پلٹ آتا۔کسی کو کافر یا واجب القتل قرار دینا ریاست کا کام ہے، اب ریاست اس رجحان کے تدارک کیلئے اقدام کر رہی ہے تو علماء کرام کو ریاست کا ساتھ دینا چاہئے۔حکومت کو مذہبی جذبات مجروح کرنے یا گالیاں دینے پر سزا کے قانون میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے سزا میں اضافہ کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز کی یہ تجویز بھی صائب ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ’’پیغامِ پاکستان‘‘ تشکیل دیا ہے جس پر سول اور عسکری قیادت متفق ہے، پارلیمنٹ اس قومی بیانیہ کو اپنائے اور اس کی بنیاد پر قانون سازی شروع کرے۔ معاشرے کے دیگر طبقات بالخصوص اساتذہ کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ فتوے لگانے، واجب القتل قرار دینے اور مذہب کی غلط تشریحات کے رجحان کا خاتمہ ہو سکے۔

تازہ ترین