• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین کے ساتھ ہمارے تعلقات روایتی قسم کے نہیں بلکہ پاک، چین دوستی ضرب المثل کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ جس کے لئے ”ہمہ موسمی“ شہد سے شیریں، ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے عمیق، جیسے استعارات استعمال ہوتے ہیں۔1951ء میں دونوں ہمسایوں کے مابین سفارتی تعلقات کا قیام عمل میں آیا اور باہمی تعلقات میں بتدریج گہرائی اور گیرائی آتی چلی گئی۔ چین کی اعانت سے پایہٴ تکمیل کو پہنچنے والے منصوبے ہیوی ری بلڈ فیکٹری ٹیکسلا پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کا قیام، قراقرم ہائی وے، گوادر کی بندرگاہ اور چشمہ نیو کلیئر پروجیکٹس وغیرہ کی شکل میں دنیا کے سامنے ہیں۔ کہنے کو تو یہ بہت کچھ ہے مگر حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ کیا جا سکتا تھا جس کے لئے چین کی طرف سے آمادگی بھی موجود تھی مگر ہم اپنی روایتی کاہلی اور نااہلی کے سبب فائدے نہیں اٹھا سکے۔ تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لئے ہم آج بھی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان گواہ ہیں کہ چین نے اس حوالے سے پیشکش بہت پہلے کی تھی، چین کی پیشکشوں کی فہرست طویل ہے ایک سے ایک بڑھ کر invitiative آیا مگر بدقسمتی سے ہمارے اندر کیپسٹی ہی نہیں تھی اور اکثر و بیشتر باہمی تعاون کے فیصلوں کو identify ہی نہیں کر پائے۔ چین کے ہمسایہ ممالک کی تعداد چودہ ہے سبھی کے ساتھ اس کی تجارت انتہائی بلندیوں کو چھو چکی۔ بدقسمتی سے پاکستان اس فہرست میں شامل نہیں۔ آزاد تجارت معاہدہ کی موجودگی کے باوجود حقیقی دوطرفہ تجارت افسوسناک حد تک کم ہے، برآمدات تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔
جہاں تک پاکستان اور چین کے مابین سیاسی، سفارتی اور تزویری تعلقات کا تعلق ہے تو قارئین یہ جان کر حیران ہوں گے کے اس کی ذمہ داری بھی بڑی حد تک بیجنگ ہی نبھا رہا ہے ورنہ اگر اسلام آباد والوں کا بس چلتا تو یہ تکلف کبھی کا ختم کر چکے ہوتے۔ ہم چین کی دوستی پر ناز کرتے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ وہ کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑے گا مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ بین المملکتی معاملات نہایت نازک ہوتے ہیں۔ اس میں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا ہر چیز کو Taken for granted لینے کے بجائے پاکستان کوچوکس اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے بعض اوقات معمولی چوک بھی ناقابل تلافی نقصان کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔
پچھلے دنوں اس قسم کی ایک چوک کا ذکر میڈیا میں نہایت شد و مد کے ساتھ ہوتا رہا۔ مسعود خان کے اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹرز نیو یارک میں پاکستان کے مستقل مندوب کی تقرر کے ساتھ ہی چین میں سفیر کی جگہ خالی ہوگئی جسے پُر کرنے کیلئے فارن آفس میں ہونے والی تیاریوں کا تو علم نہیں، البتہ میڈیا میں خوب قیاس آرائیاں ہوئیں اور بعض سفارت کاروں کا ذکر تسلسل کے ساتھ ہوتا رہا جن میں سنگاپور میں پاکستانی سفیر سید حسن جاوید، افغانستان میں سفیر محمد صادق، چیف آف پروٹوکول غالب اقبال اور ملائیشیا میں متعین ہائی کمشنر مسعود خالد کے اسماء خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جن میں سے اول الذکر تینوں گریڈ21 جبکہ آخر الذکر مسعود خالد گریڈ 22 کے سفارت کار ہیں اور فارن سیکرٹری جلیل عباس جیلانی کے بیچ میٹ ہیں۔
سفارت کاری کے کچھ اپنے قرینے اور آداب ہیں جن کا نازک آبگینوں سے بھی زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے۔ کسی ملک کو آپ کتنی اہمیت دیتے ہیں، اس کا اندازہ بالعموم وہاں بھیجے جانے والے سفیر کے مقام و مرتبہ سے کیا جاتا ہے، چین کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر روایتی طور پر سینئر اور بہترین سفارت کاروں کو بیجنگ میں بطور سفیر بھجوایا جاتا رہا ہے جہاں سے مراجعت پر اکثر و بیشتر فارن سیکرٹری کے منصب پر فائز ہوتے رہے ہیں۔ انعام الحق، ریاض کھوکھر، ریاض احمد خان اور سلمان بشیر ماضی قریب کی مثالیں ہیں، جو چین سے واپسی پر یکے بعد دیگرے پاکستان کے فارن سیکرٹری بنے۔
الحمدللہ چین میں سفیر کے تقرر کا مرحلہ طے ہو چکا ہے۔ حق دار کو حق مل گیا ایک اہل اور سینئر سفارت کار مسعود خالد بیجنگ سدھار چکے یا غالباً پابہ رکاب ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ چین کے خصوصی مقام و مرتبہ کے پیش نظر مسعود خان کے نیو یارک میں تقرر سے قبل یا کم از کم ایک ساتھ ہی بیجنگ میں ان کے جانشین کے نام کا اعلان کر دیا جاتا تاکہ غیر ضروری قیاس آرائیاں جنم نہ لیتیں، یوں اندر کی بات اندر ہی رہتی اور میڈیا میں جونیئر لوگوں کے ناموں کی تشہیر نہ ہوتی اور اگر ایسا ہی رہا تھا تو فارن آفس کو فوری اقدام کر کے معاملے کی وضاحت اور تردید کردینا چاہئے تھی۔ اللہ کرے میری سوچ غلط ہو اور بیجنگ نے ہمیشہ کی طرح کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہو ورنہ میزبان ریاستیں اس قسم کی گپ شپ کا برا مان جاتی ہیں۔ چیف آف پروٹوکول غالب اقبال کے حوالے سے تو خاص طور پر رنگ آمیزی کی گئی اور انہیں ایوان صدر کے حمایت یافتہ امیدوار کے طور پر پیش کیا گیا اور یہاں تک کہا گیا کہ وہ تو بعض وجوہ کی بنا کر موصوف خود ہی پیچھے ہٹ گئے ورنہ ایوان صدر تو انہیں ہر قیمت پر بیجنگ بھجوانے پر تلا ہوا تھا۔ مانا کہ ہم گپ شپ کے شوقین لوگ ہیں مگر نازک سفارتی معاملات کو اس سے الگ رکھنا بہت ضروری ہے اس قسم کی بے احتیاطی کوئی نئی نہیں، سفراء کے تقرر کے معاملے میں ذاتی پسند اور ناپسند پہلے بھی کارفرما رہی ہے۔ ماضی قریب میں جس کی مثال جہانزیب خان کا کیس ہے ڈی ایم جی کے گریڈ20 کے اس انتظامی افسر کو فرانس جیسے اہم یورپی ملک میں سفیر مقرر کردیا گیا تھا اور ہوائی یہ چھوڑی گئی کہ موصوف صدر سرکوزی کے بھائی کے دوست ہیں اور یوں پاک، فرانس تعلقات کو فیملی افیئر کے طور پر چلائیں گے۔ پیرس میں مقیم ایک پاکستان نژاد فیشن ڈیزائنر کا ذکر بھی آیا کہ موصوف کی اعلیٰ فرانسیسی حلقوں کے علاوہ صدر پاکستان کے ساتھ بھی گاڑھی چھنتی ہے اور یہ تقرر ان کے ایما پر ہوا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون O
یہ الگ بات ہے، کہ اس وقت فارن آفس والوں نے دلیری دکھائی تھی اور سخت احتجاج کے بعد تقرر منسوخ کروا دیا تھا۔ البتہ یہ احساس بہت کم لوگوں کو ہوا ہوگا کہ ہماری اس مہم جوئی نے پاک، فرانس تعلقات پر کیا اثرات مرتب کئے۔ فی الحقیقت فرانس نے اس کھیل تماشے کا بہت برا منایا تھا۔ ایک فرانسیسی سفارت کار نے اظہار حیرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی؟ اور اب صاحبزادہ یعقوب خان کی جگہ ایسے لوگ لیں گے؟ یاد رہے پاکستان کے تین مرتبہ وزیر خارجہ رہنے والے ہفت زبان صاحبزادہ یعقوب خان فرانس میں سفیر بھی رہے۔ یہ بھی یاد دلایا گیا کہ روایتی طور پر دونوں ملک سفراء کے مقام و مرتبہ کا جو خیال رکھتے آئے ہیں، کیا اسے ختم کر دیا گیا؟ ظاہر ہے کہ سفارت کاری میں اس سے سخت زبان تو استعمال نہیں کی جا سکتی تھی۔ غالب اقبال اور جہانزیب خان کے کیس میں مطابقت یہ بھی ہے کہ دونوں کو ایوان صدر کا امیدوار قرار دیا گیا۔ جہانزیب نے تو ایک انٹرویو میں یہ انکشاف بنفس نفیس کیا تھا کہ تقرر سے قبل انہیں ایوان صدر طلب کیا گیا تھا، جہاں ان کی صدر مملکت سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور چیف آف پروٹوکول ہونے کے ناتے غالب اقبال کیلئے بھی ایوان صدر کوئی نئی جگہ نہیں۔
چین کے معاملے میں احتیاط یوں بھی ضروری تھی کہ اس نوعیت کی حماقت ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ سلمان بشیر کی بطور فارن سیکرٹری وطن مراجعت کے بعد سینئر سفارت کار ضمیر اکرم کو بیجنگ میں ان کا جانشین مقرر کیا گیا تھا، جس کی حکومت چین نے منظوری بھی دے دی پھر نہ جانے حکومت کو کیا سوجھی کہ ضمیر اکرم کی جگہ مسعود خان کے بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ بیجنگ میں اس وقت بھی بعض ابروؤں پر بل آئے تھے اور پاکستان کی اس حرکت کو بچگانہ قرار دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ ضمیر اکرم، انتخاب نو مسعود خان سے دو برس سینئر تھے۔
تازہ ترین