• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور(1958-1968)کی مثالیں دیتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہےکہ بعدمیں آنےوالی جمہوری حکومتوں نےانتخابات جیتنےکیلئےصرف مختصرمدتی پرا جیکٹس کاسوچا۔ اب کیا یہ جمہوری نظام کی ناکامی کے باعث تھا کہ وہ ایوب دور کی تعریف کرتے ہیں یا وہ واقعی آمرانہ دورِحکومت یاصدارتی نظام کوپسند کرتے ہیں؟ان کاخیال ہےکہ خاص طورپر 60کی دہائی میں پاکستان درست سمت میں ترقی کررہاتھا اور ادارے مضبوط ہورہے تھے۔ اس دور کو مدِنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے اقتدار میں آنے کے بعد سول سروس میں اصلاحات کیلئے ایک ’ٹاسک فورس‘ تشکیل دی تھی۔ ہفتے کو میں نے اُس ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹرعشرت حسین سے پوچھاکہ وزیراعظم سول سروس میں اصلاحات کیلئے کتنے سنجیدہ ہیں اور ان کی رپورٹ کا کیا ہوا۔ انھوں نے کہا،’’ وہ بہت سنجیدہ ہیں اور اب نفاذ کا وقت آگیاہے۔‘‘ آج کیبنیٹ کی منظوری کے بغیر کوئی ہائی پروفائل تقرری نہیں کی جاسکتی، انھوں نے مزید کہاکہ اس کیلئے سپریم کورٹ کا شکریہ۔ تاہم حکوتمی حلقوں میں اس بارے میں دو رائے ہیں کہ سول سروس اور پولیس سروس کو مکمل آزاد کردیاجائے یااسے مراحل میں ٹھیک کیاجائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 50اور60کی دہائی میں سول سروس پہلےانڈین سول سروس اور بعد میں پاکستان ایڈمنسٹریٹوسروس کےاعلیٰ تعلیم یافتہ سول سرونٹس پر مشتمل تھی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 1948اور1958 کے درمیان کے سیاسی بحران میں سول سرونٹس بہت زیادہ شامل تھے جس کا نتیجہ بعد میں 1958کے پہلے مارشل لاءکی صورت میں نکلا۔ ایوب خان نے1956کا آئین معطل کردیا اور لہذا آمرانہ طرزِ حکومت کی بنیاد رکھی جس کےبعدملک میں تین مزید فوجی حکومتیں آئیں۔ سول سرونٹس نے انھیں مکمل سپورٹ فراہم کی اور ان کی حکمرانی کو تحفظ فراہم کرنے کیلئےقوانین بھی بنائے۔ انھوں نے بعد میں بنیادی جمہوریتوں کے ذریعے 1962میں اپنا آئین متعارف کردیا۔ انھں نےالیکشن میں دھاندلی کی اورمشترکہ اپوزیشن کی امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دے کرخود کو صدرمنتخب کروالیا، وہ اتنا دلبرداشتہ ہوئیں کہ انھوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ پہلے مارشل لاءنےاس وقت کے مشرقی پاکستان میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی میں عدم تحفظ پیدا کیا۔ جایوب خان نے سول سروس میں بھی مداخلت کی اورآئی سی ایس گروپ کےکئی بہترین سول سرونٹس کو نکال دیااور نئے چہرے لے آئے۔ چونکہ وہ کافی طویل مدت تک حکومت کرنا چاہتے تھے لہذا انھوں نے مختلف شعبوں میں کافی اصلاحات کیں۔ چونکہ پاکستان 50کی دہائی میں امریکی کیمپ میں شامل ہوگیاتھااور خود کو کمیونسٹ بلاک سے الگ کرلیاتھا تو ان کی حکومت کو مغرب سے کافی سپورٹ ملی۔ بالآخر انھوں نے سیاسی افراتفری کے نتیجے میں اقتدارچھوڑنےکافیصلہ کرلیاتھا لیکن انھوں نے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کردی تھی اورسپیکر قومی اسمبلی کی بجائے اقتدار ایک اور آمر جنرل یحیٰ کومنتقل کردیاتھا۔ تجربہ کار بیوروکریٹ روداد خان جنھوں نے ایوب کے ماتحت کام کیاہے،ان کےمطابق اگرچہ اس دور میں کافی مثبت اور منفی دونوں ہی باتیں تھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نےایسے وقت میں مارشل لاء نافذ کیاتھاجب اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان کے سیاسی عزائم تھے اور بعد میں انھوں نے اپنے بیٹے کے ذریعے اپنی میراث قائم کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نےدو بیوروکریٹس الطاف گوہر اور شہاب الدین کے مشہورے پر پریس کو بھی اس وجہ سےخاموش کرادیا کہ آزاد پریس اور آمرانہ طرزِ حکومت ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ نظریہِ ضرورت بھی ان کے دور کی پیداوار تھی۔ بعد میں آنے والی حکومتوں اور عدلیہ نے 90کی دہائی اور 2007تک ان دوکالے قوانین کی پیروی کی۔ نظریہ ضرورت کے تحت ایوب کے مارشل لاءکوقانونی حیثیت دی گئی اور بعد میں 1981میں ضیاءالحق کےمارشل لاءکیلئےبیگم نصرت بھٹو کےکیس اور 2002میں جنرل پرویز مشرف کیلئےظفرعلی شاہ کےکیس میں غیرقانونی حکومتوں کو قانونی قراردیاگیا۔ یہ صرف 2007میں عدلیہ کے آزاد ہونے کے بعد تھا کہ اس قانون کو برا قانون قراردیاگیا۔ دوسرا قانون جس نے ریاست کے چوتھے ستون کوبری طرح نقصان پہنچایاتھا وہ 1960کا پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس تھا۔ ایوب خان کے مارشل لاءاٹھانے کے بعد بیوروکریسی مزید مضبوط ہوگئی لیکن اس وقت مزیدسیاسی بھی ہوگئی تھی کیونکہ ایوب کےسیاسی عزائم تھے۔ انھوں نے کراچی سےاسلام آباددارالحکومت تبدیل کرکےاور ڈھا کا کونظراندازکرکےسب سےبڑامتنازع فیصلہ کیا۔ جب بنگالی بیوروکریٹس نے واقعی عدم تحفظ کو محسوس کیا تو اردو بولنےوالےبیوروکریٹس نے اسے اپنے لیے مزید مواقع کے طورپر دیکھا لیکن بعد میں انھیں مایوسی ہوئی۔ ایوب کے بعد پاکستانی سیاست بہت زیادہ تبدیل ہوگئی، اُن کے بعد پہلی بار 1970میں ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر انتخابات ہوئے۔ الیکشن اس وقت منعقد ہوئے جب مشرقی پاکستانی میں نیشنل ازم اپنے عروج پر تھا اس کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمٰن نےکامیابی حاصل کی اور مغربی پاکستان کی جماعتوں کو مکمل طورپر شکست ہوئی۔ سیاسی بحران کانتیجہ بعد میں ملٹری آپریشن کی صورت میں نکلا اور ملک تقسیم ہوگیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ غالباً بھٹو جس کے پاس بیوروکریسی سے نمٹنے کا تجربہ تھا، انھوں نے جلد بازی میں بیوروکریسی کو نشانہ بنایا اور کئی تجربہ کار بیوروکریٹس کو برطرف کردیا گیا اور بیوروکریسی مزید سیاسی ہوگئی۔ لیکن ان کے چار سالوں میں طویل المدتی پراجیکٹس شروع ہوئےجیسے پا کستا ن کا جوہری پروگرام، کراچی سٹیل(بعد میں اسے پاکستان سٹیل کانام دیاگیا)، کراچی پورٹ ٹرسٹ، کراچی شپ یارڈ۔ یہ بھی بھٹوکی سیاسی حکومت کےدوران ہی ہوا کہ پہلی بار قومی شناختی کارڈ جاری کیے گئے۔ اس سب سے اوپر، پہلا متفقہ آئین 1973میں پارلیمنٹ نے منظورکیا۔ ان کے چارسالہ دورِ اقتدار کا واحد طرہِ امتیاز آزاد خارجہ پالیسی تھی۔ لہذا یہ حقائق کے خلاف ہے کہ سویلین حکومتوں نے صرف مختصرمدتی پراجیکٹس شروع کیے۔ جب سویلین اور منتخب حکومتوں نے آمرانہ طورطریقے اختیار کیے تو وہ انھیں پھندوں میں پھنس گئے جو انھوں نے اپوزیشن کیلئے بنائے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کی نیت اداروں کو مضبوط کرنے، سول سروس اور پولیس کو غیر سیاسی بنانےکی ہوسکتی ہے لیکن اگر انھوں نے یہ سب پارلیمنٹ اور میڈیا کو کمزورکرکےکیا تو وہ اپنے پیشرووں کے نقشِ قدم پر ہی چلیں گےاور دوسروں کیلئے بنائے گئے جال میں پھنس جائیں گے۔ جمہوری حکومتوں کا نہ صرف احتساب ہوسکتا ہے بلکہ لوگوں کو بھی جواب دہ ہیں اور اکثراپنی مدت پوری کیے بغیر ہی انھیں نکال دیاجاتاہے۔ گزشتہ دس سالوں میں دووزیراعظموں کو نہ اہل کیاجاچکاہے جبکہ دیگر کا ٹرائل ہوا اور سزا بھی دی گئی۔ گزشتہ 71سالوں میں کیا ہم آمرانہ حکومتوں سے ایسی کوئی مثال دے سکتیں ہیں۔ لہذا جب وزیراعظم ایوب دور کی مثال دیتے ہیں تو یہ اہم ہے کہ آمرانہ حکومتوں کےدونوں پہلودیکھیں۔ وہ خود بھی جمہوری طریقہ کار کی پیداوار ہیں۔

تازہ ترین