• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال سردی کی آمد کے ساتھ ملک بھر میں مائع پیٹرولیم گیس اور کمپریسڈ نیچرل گیس کی قلت، کمیابی، تقسیم کی خرابیوں، بدنظمیوں اور عام لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کا ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جیسے یہ سردی پہلی بار آئی ہو اور اچانک پڑنے والی افتاد سے بے خبر انتظامیہ اور عمال حکومت اس نوع کی صورت حال سے نمٹنے کے پیشگی انتظامات کی ضرورت و اہمیت سے بالکل ناواقف ہوں۔ اس برس کئی علاقوں میں برفباری، بارشوں اور سرد ہوائوں کی آمد کے حالات ایندھن و توانائی کی ضروریات کے حوالے سے جو رخ اختیار کرتے نظر آرہے ہیں ان پر ہنگامی بنیادوں پر فوری توجہ نہ دی گئی تو بعض بزرگ اور جہاں دیدہ شخصیات کی یاد داشتوں میں موجود ان واقعات کے دہرائو کے اندیشوں کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جن کا 1972ء میں عوامی بہبود کے دعووں کے ساتھ آنے والی بھٹو حکومت کے قیام کے بعد کے دنوں اور مہینوں میں مشاہدہ کیا گیا۔ صاحبان دانش کا کہنا ہے کہ قومی سرمایہ داریت جس طرح ملکوں میں تعلیم، شعور، ترقی کے رجحانات، حتیٰ کہ برٹش انڈیا کے آخری دنوں کے مانند قومی آزادی و فلاح میں معاون بنتی ہے، اس سے بالکل الٹ کام ایسٹ انڈیا کمپنی جیسے تسلط پسند، قبضہ گیر ادارے کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں عوامی بہبود اور سماجی ترقی کی طرف بڑھتے ہوئے کئی معاشروں کے تار و پود جس طرح بکھیرے گئے وہ اس کی مثال ہیں۔ پاکستان کو بھی بار بار مختلف جہتوں اور زاویوں سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور ان کوششوں میں تاحال جو تسلسل نظر آرہا ہے، وہ متقاضی ہے اس بات کا کہ ہمیں قومی زندگی کے ہر شعبے میں ہر پہلو سےچوکس و مستعد رہنا ہے۔ وطن عزیز میں عشروں سے معلوم تیل، گیس، کوئلہ اور معدنیاتی وسائل کی موجودگی۔ بجلی پیدا کرنے کے لئے پانی، ہوا اور سورج کی وافر توانائی۔ سمندروں ریگستانوں اور پہاڑوں پر مشتمل وسائلِ دولت اور توانا افرادی طاقت کی دستیابی کے باوجود اگر ہر سطح پر ولولوں کی شکستگی کے سامان نظر آتے ہیں تو اس کے تدارک کے لئے واجبی کوشش کافی نہیں، بھرپور وارفتگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امسال موسم سرما کی پہلی لہر آتے ہی معیشت کا انجن کہلانے والے شہر کراچی سے لے کر ملک کے ہر صوبے، ضلع اور شہر میں جو ہاہاکار نظر آرہی ہے، وہ نہ نئی ہے نہ اس کی ذمہ داری سے صارفین کی تنظیموں سمیت کوئی سرکاری یا غیرسرکاری ادارہ بری الذمہ ہے۔ ملک کے ہر صوبے اور شہر میں گیس کی قلت، لوگوں کی مشکلات اور موقع پرستوں کی لوٹ مار کی تفصیلات وہی ہیں جو ہر سال سامنے آتی ہیں۔ متعلقہ کمپنی اور شہری حکام کی نئی وضاحتیں بھی وہی ہیں جو سب کو عرصے سے ازبر ہیں۔ مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ برسوں سے امپورٹ کے معاہدوں اور سودوں سے سہولتیں ملنے کی جو امیدیں بندھائی جاتی رہیں وہ ہر سال سردی کا موسم آتے ہی کہاں چلی جاتی ہیں؟ کوئٹہ اور اندرون سندھ سردی بڑھنے سے گیس پریشر کم ہونے کی شکایات ہوں، علانیہ یا غیرعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہو، گیس کی عدم دستیابی کے باعث ٹرانسپورٹ کی مشکلات اور کرایوں میں غیرمعمولی اضافہ ہو، سب ہی باتیں برسوں کا معمول ہیں۔ مگر کراچی کے تاجروں کا یہ استعجاب بہرطور وزن رکھتا ہے کہ وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور وزیر پیٹرولیم کی طرف سے صنعتوں اور کیپٹیو پاور کمپنیوں کی گیس منقطع نہ کرنے کی تین روز قبل کرائی گئی یقین دہانی کے باوجود ایس ایس جی سی نے تین ماہ کے لئے گیس بندش کا نوٹیفیکیشن کیسے جاری کردیا؟ اس صورت حال کو برسوں سے جاری معمولات کے حوالے سے دیکھنے کی بجائے بنظر غائر دیکھا جانا چاہئے کیونکہ یہ باتیں گیس کی قلت اور بندش تک محدود نہیں، بہت سے دیگر معاملات اور پہلوئوں سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ سرکاری و نیم سرکاری کمپنیوں، اداروں اور محکموں کو حکومتی احکامات و ہدایات پر عملدرآمد کا پابند بنایا جانا ضروری ہے۔ سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں سیاسی تقرریوں کے باعث نااہلی، غفلت، کاہلی اور سستی کے چلن نے ہر شہری کو جس غیریقینی صورت حال سے دوچار کر رکھا ہے، اس کا اب خاتمہ ہونا چاہئے۔

تازہ ترین